چین سے انسانی حقوق پر سوال اور بھارت کو چھوٹ؟

547

بھارتی وزیرِ اعظم مودی کے امریکا کے دورے دوران رائٹر کے مطابق ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ سال ِ گزشتہ کی طرح ایک مرتبہ پھر امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کی جانب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر اس سے سخت احتجاج کرتے ہوئے اس پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے لیکن ’’نقار خانے میں توتی کی آواز کون سنتا‘‘ کے مصداق امریکا نے مودی کی خوب آؤ بھگت کی۔ بھارتی وزیرِاعظم سے امریکی صدر بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس ملاقات میں مودی کو یقین دلاتے رہے کہ بھارت ساؤتھ چائنا سی میں اپنے آپ کو اکیلا نہ سمجھے۔ امریکی اخبار ’’POLITICO‘‘ کا کہنا ہے کہ ’’بائیڈن بھارت میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی پر اگر مودی کو کچھ نہیں کہہ سکتے تو ان کو اس بات کا اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ چین کو انسانی حقوق کا درس دیں‘‘۔
بی بی سی کے مطابق ستمبر 2020ء اور 2019ء میں بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت میں انسانی حقوق کے سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور امریکا سے کہا تھا کہ وہ بھارت پر ہنگامی طور پر عسکری اور معاشی پابندی عائد کرے اور بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ جس پر نئی دہلی سے وزارتِ داخلہ کا کہنا تھا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ میں رقوم کی ترسیل غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون (FDI) کے تحت کی جاتی ہے اور ایک غیر حکومتی اور غیر منافع بخش تنظیم کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ بھارت پر انگلی اُٹھائے۔ وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ایمنسٹی کا یہ دعویٰ کہ انسانی حقوق کے گروپوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، سچائی پر مبنی نہیں ہے۔ ایمنسٹی کو کئی دوسری تنظیموں کی طرح انسانی امداد کا کام جاری رکھنے کی اجازت ہے لیکن ملکی قانون کے تحت اسے انتظامی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔
چند دن قبل ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق بھارت ڈرانے دھمکانے کی پالیسی جاری رکھے ہو ئے ہے۔ بھارت سے عالمی اخبارات اطلاع دے رہے ہیں کہ بھارت میں انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان بھارتی حکومت کے منفی ردِ عمل کا سامنا کر رہے ہیں جس میں تین برسوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کا مقصد جابرانہ قوانین کے تحت ان کے انسانی حقوق کو پامال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے بھارت میں قائم ہندو قوم پرست حکومت نے غیر ممالک سے سرمائے کی ترسیل کے ضابطوں (FCRA) میں اپنی مرضی کی ترمیم بھی کی ہے۔ ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ ان ترامیم کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور یہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو دبانے میں حکومت کو مدد دیں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس ترمیم کا ایک اور مقصد سول سوسائٹی کے متحرک کارکنوں کی غیر ملکی امداد تک رسائی کو محدود کرنا بھی ہے۔
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بھارت میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مبینہ حکومتی جبر کے تحت بھارت میں اپنا آپریشن 2020ء میں عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔ جس کے بعد بھارتی حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تفتیش کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارتی دفتر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوینیش کمار نے رائٹر کو بتایا کہ انہیں سنگین صورت حال کا سامنا تھا۔ ان کے بقول بھارتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے حکم پر ان کی تنظیم کے بینک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم کو اپنے دفتر کے ایک سو پچاس افراد کو جبراً فارغ کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی حمایت میں جاری مہم اور ریسرچ ورک کو بھی معطل کرنے کا کہا گیا تھا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے بھارت کے مختلف شہروں کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت انہیں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی تفتیش اور معلومات جمع کرنے سے دور دھکیلنے میں مصروف ہے۔ اس تناظر میں اوینیش کمار نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ایک ایسی تنظیم ہے جس کا مقصد ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنا ہے اور اس کو جن حالات کا سامنا تھا، ان سے محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت کو اس تنظیم کا آواز بلند کرنا پسند نہیں۔
مارچ 2021ء میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس انسانی حقوق کی صورت حال اچھی نہیں رہی، دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ظالمانہ صورت حال میں مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے سال 2020 میں دنیا میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے رپورٹ میں کہا ہے کہ غیرقانونی اور یک طرفہ گرفتاریاں اور ماورائے عدالت انصاف، قتل اور گمشدگیاں بھارت میں اہم مسائل ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ امریکی کانگریس کی منظوری سے مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں دنیا کے ان ملکوں کی انسانی حقوق کی صورت حال پر تبصرہ ہوتا جنہیں امریکا امداد فراہم کرتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے اپنی رپورٹ میں 2020 کے ابتدائی چھے ماہ میں جموں و کشمیر کے واقعات کے حوالے سے کہا ہے کہ ماورائے انصاف قتل کے 32 واقعات درج کیے گئے۔ عسکریت پسندوں کے حملوں اور ان کے خلاف جوابی کارروائیوں کے نتیجے میں 63 عام شہری، 89 سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور 284 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دیے جانے کے بعد بھارتی حکام نے مقامی سیاست دانوں کو مقدمہ چلائے بغیر قید میں رکھنے کے لیے پبلک سیفٹی قانون کا استعمال کیا اور بعض لوگوں کو اس شرط پر رہائی نصیب ہوئی کہ وہ آئندہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر میں بھارتی انتظامیہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ کا استعمال کیا جو حکام کو ’’کسی شخص کو کسی الزام یا عدالتی کارروائی کے بغیر دو برس تک قید میں رکھنے اور ان کے کسی عزیز کو بھی ملاقات کی اجازت نہ دینے کا اختیار دیتا ہے‘‘۔
امریکی محکمہ خارجہ کی یہ رپورٹ 2019ء میں جاری کی گئی تھی لیکن ٹرمپ اور مودی کی اسلام دشمن پالیسی نے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ کو کوڑے دان میں پھینک دیا تھا اور اب بائیڈن بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ امریکی اخبارات بائیڈن انتظامیہ سے معلوم کر رہی ہے بائیڈن کا چین سے انسانی حقوق مطالبہ اور بھارت کو چھوٹ؟ دینے کا کیا مقصد ہے اور اس سلسلے میں عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی بہتری کے ہر وہ طریقہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے، جس سے دنیا کو زیادہ پر امن اور انصاف پر مبنی بنایا جا سکے۔