پھر جیب کٹے گی

378

دنیا بھر میں عوام کو لوٹنے کے مختلف طریقے ہیں لیکن آج کل سب سے زیادہ مقبول طریقہ وہی ہے جو 1960ء کے عشرے میں تھا یعنی کسی معروف بازار یا چوک پر کچھ میراثی یا مخولیے جگت بازی میں مصروف ہوجاتے ہیں، لوگ ان کے جملوں سے محظوظ ہوتے ہیں کبھی کبھار یہ لوگ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ گویا زبردست لڑائی ہوگئی ہے اور اس طرح بھاگ دوڑ کرتے ہیں کہ تماشا دیکھنے والوں کو بھی دھکے لگتے ہیں۔ گھنٹا ڈیڑھ گھنٹا تماشا چلتا ہے اس کے بعد لوگ منتشر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ پھر ایک ایک کرکے لوگ اپنی جیبیں ٹٹولتے نظر آتے ہیں کسی کو بس میں بیٹھ کر پتا چلتا ہے کسی کو گھر جا کر اور کسی کو پتا ہی نہیں چلتا کہ اس کی جیب کہاں صاف ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ میراثی یا تماشا گر دو تین مرتبہ اعلان کرتے ہیں کہ تمام لوگ جیب/ پاکٹ سے ہوشیار رہیں۔ یہاں جیب کترے گھوم رہے ہیں۔ اس اعلان کے ساتھ ہی لوگ اپنی ان جیبوں پر ہاتھ مارتے ہیں جہاں مال رکھا ہوتا ہے پھر ماہر جیب کترے ان کی جیبوں کا صفایا کرتے ہیں۔ طریقہ اب بھی یہی رائج ہے لیکن جیب کترے وائٹ کالر ہوگئے ہیں، مجمع چوک پر نہیں ٹی وی اور اخبارات میں لگ رہا ہے اور لوگ پہلے سے زیادہ دلجمعی سے یہ تماشا دیکھتے ہیں اور پھر ان کی جیب کٹ جاتی ہے۔ اس تماشے میں جیبوں کی صفائی میں سو دو سو یا چند ہزار نہیں جاتے بلکہ ایک چور نکالا جاتا ہے دوسرا پانچ سال کے لیے آجاتا ہے۔ یعنی حکومتیں بدلتی ہیں۔ اب مخولیوں کا نام بدل گیا ہے انہیں بھانڈ یا میراثی نہیں کہا جاتا، یہ آرٹسٹ ہیں، تجزیہ نگار ہیں یا پارٹیوں کے ترجمان ہیں۔ یہ لوگ زور و شور کے ساتھ کوئی ایک موضوع دکھاتے ہیں۔ پھر حکومت اور اپوزیشن کے ترجمانوں کو بلاتے ہیں تماشا دکھانے والے اینکر نئے نئے انداز سے جگت بازیاں کرتے ہیں ویسے اس معاملے میں سیاسی رہنما بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ جگت بازوں کو بیروزگار کردیا ہے اس وجہ سے انہوں نے بھی ہر ٹی وی چینل میں کسی نہ کسی طرح اپنا پروگرام شروع کروا رکھا ہے۔
آج کل حکومت اور اپوزیشن الیکٹرونک ووٹنگ مشین، نیب چیئرمین اور چیف الیکشن کمشنر کے مسئلے پر ٹی وی چینلوں پر مجمع لگائے بیٹھے ہیں اس قدر شور ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ یہی دو تین مسائل تھے جن کا حل بہت ضروری تھا بس نیب چیئرمین بدلنے کی دیر ہے سارے چور صبح کو چوراہوں پر لٹکے ہوئے ہوں گے۔ الیکشن کمشنر تبدیل ہوتے ہی لوگوں کے ووٹ کو عزت مل جائے گی اور وہ جس کو ووٹ دیں گے وہی جیت جائے گا۔ اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے آتے ہی پاکستان میں شفاف ترین جمہوریت آجائے گی۔ آج کل بھی ہم جہاں گیر ترین جمہوریت کے مزے لے رہے ہیں۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے مسئلے پر حکومت اور اپوزیشن الجھ گئے ہیں اپوزیشن نے الیکشن کمشنر کے حق میں آواز اٹھائی اور یوں تماشا شروع ہوگیا۔ لوگوں کی جو تین اقسام ہم نے ابتدا میں بتائی تھیں اب پاکستانی قوم ان میں سے آخری قسم کے لوگوں میں شامل ہے جنہیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کی جیب کٹ گئی ہے۔ چناں چہ الیکشن کمشنر اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی بحث کے دوران پٹرول 112 روپے سے 123 روپے سے زیادہ ہوگیا۔ اور مزید آگے جارہا ہے۔ خوردنی تیل مہنگا ہوگیا۔ دودھ، انڈے، روٹی، آٹا، چینی سب مہنگے ہوگئے۔ کرایے بڑھ گئے، خوراک تو چھوڑیں دوائیں مہنگی ہوگئیں، ملک کا غیر ملکی قرضہ 112 ارب ڈالرز سے زیادہ ہوگیا۔ بیروزگاروں کی تعداد حکومتی تخمینوں سے ڈھائی گنا زیادہ نکلی۔ ڈالر مہنگا ہوگیا یعنی پاکستانی روپیہ مزید بے توقیر ہوگیا۔ آئی ایم ایف کے پاس جا کر خودکشی کرنے کے نتائج بھی سامنے آگئے، اب وہاں سے باقاعدہ حکم جاری ہوا ہے کہ پاکستان گیس، بجلی اور کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی ختم کرے۔ اور حکومت آئی ایم ایف سے مزید ایک ارب ڈالر کے حصول کی خاطر بجلی و گیس مزید مہنگی کردے گی۔ لیکن مجال ہے جو ہماری قوم کو پتا چل جائے کہ پھر اس کی جیب کٹ گئی ہے۔ سب اسی بحث میں لگے رہتے ہیں واہ کیا جملہ تھا شیخ رشید کا جواب نہیں۔ رانا ثنا بھی کچھ کم نہیں۔ اور مراد علی شاہ اور مولا بخش چانڈیو بھی اچھے جملے کہتے ہیں، جب تک الیکشن کمشنر کا تقرر ہوگا چیئرمین نیب کا معاملہ حل ہوگا اور الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا معاملہ طے ہوگا اس وقت تک عوام کی جیبوں کا مزید صفایا ہوچکا ہوگا۔ اس شور شرابے میں کراچی کی مردم شماری میں ایک کروڑ سے زیادہ کا گھپلا کردیا گیا۔ اگر جماعت اسلامی نہ بتاتی تو لوگ مزے میں تھے۔ اب سوچ رہے ہیں کہ واقعی ہماری گنتی بھی پوری نہیں ہوئی۔ اسی جگت بازی میں پانچ سال ہوجائیں گے اور لوگوں کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ کہاں کہاں کون کون سی جیبیں کٹ گئیں۔ انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، یہ ٹیکس وہ ٹیکس اور سپر ٹیکس۔ ایک ایک کرکے سبسڈی ختم ہورہی ہے، چیزیں مہنگی ہورہی ہیں لیکن قوم کو چیئرمین نیب، الیکشن کمشنر اور ووٹنگ مشین پر جگتیں سنائی جارہی ہیں۔
ان تماشا لگانے والوں کی پٹاری میں بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اور تماشا ایک ڈیڑھ ماہ سے لگا ہوا ہے کہ افغانستان کا نیا نظام کیسے چلے گا۔ کیسے چلنا چاہیے۔ طالبان یہ کریں… طالبان وہ کریں، طالبان ایسا نہ کریں۔ ہم طالبان کے وعدوں کو دیکھیں گے جو وعدے کررہے ہیں۔ وہ پورے کرتے ہیں یا نہیں۔ طالبان لڑکیوں کی تعلیم پر کیا کریں گے۔ طالبان کو کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا یہ تو ان کا مسئلہ ہے لیکن یہ باتیں وہ لوگ کررہے ہیں جنہوں نے اپنے ایک وعدے پر بھی عمل نہیں کیا، کسی دعوے پر پورے نہیں اترے۔
کشمیر آزاد کرائیں گے… کسی نے ایک قدم اس جانب نہیں بڑھایا بلکہ اس کام میں مصروف لوگوں کو پابند سلاسل کردیا۔ نیا پاکستان بنائیں گے، اسے پرانے سے بھی زیادہ خراب کردیا، ایک کروڑ ملازمتیں دیں گے، پتا چلا کہ مزید بیروزگار دے دیے۔ گھر بنا کر دیں گے، مزید بے گھر بنا دیے۔ یہ طالبان والا معاملہ تو بین الاقوامی مخولیے چلا رہے ہیں اس لیے زیادہ دن چلے گا اس سے صرف پاکستانیوں کی نہیں دنیا بھر کی جیبیں کاٹی جائیں گی، پاکستانیو… پھر جیب کٹنے والی ہے، جیب پاکٹ سے ہشیار۔