حُسنِ اخلاق

392

’’اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، مردارکھاتے تھے، بدکاریاں کرتے تھے، ہمسایوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زبردست زیردست کو کھا جاتے تھے۔ ان حالات میں ایک شخص ہم میں پیدا ہوا۔ اس نے ہمیں سکھایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، خون ریزی سے بازآئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، ہمسایوں کو آرام دیں، پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ نہ لگائیں‘‘۔
نجاشی کے دربار میں سیدنا جعفر طیارؓ کے بیان کردہ یہ الفاظ بعثتِ نبوی سے قبل عرب کے معاشرے کی حقیقی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ گویا اہلِ عرب بد اخلاقی کی معراج کو پہنچ چکے تھے۔ ایسے میں محمد عربیؐ ان کے کردار کو سنوارنے، ان کی سیرت کو سدھارنے، ان کے اخلاق کو بہتر بنانے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ نتیجے میں عرب کے وہ بدّو دنیا کے امام بن جاتے ہیں۔
اچھے اخلاق خدا کی عظیم اور انمول نعمت ہے۔ اچھے اخلاق جہاں مومن کو رب سے قریب کرتے ہیں وہیں حسنِ اخلاق کی دولت سے مالا مال فرد معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرتا، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتا ہے۔ حقیقت میں نبی اکرمؐ اخلاق کی بہتری اور کردار سازی کے لیے بھیجے گئے۔ بے شمار احادیثِ نبویہ میں اچھے اخلاق کی توصیف اور برے اخلاق کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ حسنِ اخلاق کی تکمیل کروں‘‘۔ (مؤطا امام مالک)
نبی مہربانؐ نے ایمان کی تکمیل کے لیے اچھے اخلاق کو لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں‘‘۔ (ابوداؤد)
روزے دارکے فضائل ومحاسن سے کون واقف نہیں، وہ رب سے قریب تر بندوں میں شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح راتوں کا عابد جو رب کے سامنے رات کے کسی پہر سجدہ ریز ہو کر اپنے مالک کی حمد وثنا میں مصروف ومشغول ہوتا ہے، ایسا فرد رب کے محبوب بندوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ماں باپ قربان ہوں محمد عربیؐ پر! کہ جنھوں نے حسنِ اخلاق کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بندہ مومن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے دن میں روزہ رکھنے والے اور رات میں عبادت کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
بسا اوقات ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ روزِ قیامت انسان کے نامۂ اعمال میں سب سے زیادہ وزنی عمل کون سا ہوگا؟ اور پھر خود ہی یہ جواب بھی فکر وخیال بن کر ذہن میں آتا ہے کہ شاید وہ شخص اعمال کے وزنی ہونے میں سب سے آگے ہو جو اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کردے۔ یہ بھی جواب سامنے آتا ہے کہ شاید وہ بندہ اعمال کے وزنی ہونے میں سب سے آگے ہو جس کے روز وشب اللہ کے حضور رکوع وسجود میں گزرتے ہوں۔ یا شاید وہ شخص سب سے آگے نظرآئے جو ہر وقت ذکرِ الٰہی کی خوشبو سے اپنی زبان کو معطر رکھتا ہو۔ مگر جب مطالعہ کیا تو نبی اکرمؐ کی یہ حدیث نظرسے گزری، آپؐ نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی اور بھاری کوئی چیز نہ ہوگی۔ (ترمذی)
نبی کریمؐ کی محبت کو پالینے سے بڑھ کر ایک مومن کے لیے خوش قسمتی کیا ہوگی۔ کیوں کہ اس محبت کے طفیل روزِ قیامت نبی اکرمؐ کی معیت کا شرف حاصل ہوگا۔ ایسے میں سب سے قیمتی بات حدیث مبارکہ میں بیان کی گئی۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے نزدیک تم میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں‘‘۔ (بخاری)
اسلام میں جہاں اچھے اخلاق کے حامل فرد کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے، وہیں اس کے مقابل بداخلاق شخص کی مذمت، اور اس سے ناراضی کا اظہار بھی فرمایا ہے۔ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض شخص وہ ہے جو ضدی قسم کا اورجھگڑالو ہو‘‘۔ (ترمذی)
ہمارے معاشرے کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ شریف اورسیدھے سادے فردکو بے وقوف تصورکیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ابوہریرہؓ سے مروی حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مومن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور فاجر چالاک اور کمینہ ہوتاہے‘‘۔ (ترمذی)
دیگر مذاہب اور ممالک کی ثقافت مختلف ذرائع سے ہماری نوجوان نسل کو متاثرکر رہی ہے۔ جس کا سب سے زیادہ اثر زبان وبیان پر پڑا ہے۔ دیکھاجائے تو گفتگو میں بے احتیاطی کا پہلو غالب ہے۔ بدکلامی اور فحش گوئی ہمارے معاشرے کی خوب صورتی کو کم کرتی ہوئی اسے بدنما بنا رہی ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں: ’’قیامت کے روز اللہ کے نزدیک بدترین انسان وہ ہوگا جس سے لوگ اس کی فحش گوئی کے سبب دور رہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم) جب کہ ایک مومن کی گفتگو صاف ستھری ہوتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے ’’وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے‘‘۔
عائشہؓ سے استفسارکیا گیا کہ نبی اکرمؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا: آپؐ نہ فحش گو تھے اور نہ فحش گوئی کو پسند فرماتے تھے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ معاف کرتے اور درگزر فرماتے تھے‘‘۔ (ترمذی)
حسنِ اخلاق کی اہمیت وفضیلت کو جان کر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا، اپنی شخصیت کا جزو لاینفک ٹھیرانا، اپنے دامن کو حسنِ اخلاق کے موتیوں سے بھردینا ایک مومن کو زیب دیتا ہے۔ اسی میں دنیا وآخرت کی کامیابی ہے۔