ریاست مدینہ میں اللہ ورسول کو نہ ماننے والے بھی محفوظ رہے

69

کراچی(نمائندہ جسارت)مرکزی تنظیم تحفظ ختم نبوت پاکستان کے صدر مفتی امتیاز خان مروت نے گزشتہ روز اخبارات میں چھپنے والی اپنی خبر سے متعلق اشکال پیدا کرنے والوں کو وضاحت دیتے ہوئے کہاہے کہ نبی کریم ؐ اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں جتنی جنگیں ہوئی ہیں مشرکین کے ساتھ یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اس میں یہی 3نکات سامنے
رکھے گئے ہیں کہ عقیدہ توحید و رسالت کو تسلیم کریں ، اگر نہیں کرتے تو جزیہ دیں اور اگر یہ بھی نہیں دیں گے تو پھر جنگ کے لیے تیار ہوجائیں ،تاریخ میں کئی ایسے لوگوں کا ذکر موجود ہے جنہوں عقیدہ توحید یا عقیدہ رسالت کو تو قبول نہیں کیا لیکن وہ مسلمانوں کو جزیہ دیتے رہے اور مسلم حکومت ان کو تحفظ دیتی رہی۔ہر ذی شعور جب اس پر غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے کہ نبی کریم ؐ اور صحابہ کرامؓ نے غیر مسلموں سے عقیدہ توحید اور عقیدہ رسالت پر تو مفاہمت کرکے ان سے جزیہ وصول کیااور انہیں تحفظ فراہم کیا ۔ لیکن مسلمانوں میں جب عقیدہ ختم نبوت کا مسئلہ آیا تو وہاں کسی بھی مفاہمت سے کام نہیں لیاگیا بلکہ انہیں دوٹوک انداز میں اس عقیدے کو ماننے کی بات کی گئی اور کہا گیا کہ اگر عقیدہ ختم نبوت کو نہیں مانیں گے تو پھر آپ لوگوں سے لڑائی ہوگی اور اس کی زندہ مثال جنگ یمامہ ہے ، جس کی بنیاد بھی یہی عقیدہ ختم نبوت بنی جہاں کسی قسم کی کسی مفاہمت کی بات نہیں کی گئی ۔حضرت خالد بن ولیدؒ نے صرف ایک شرط رکھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کو تسلیم کرلو ورنہ جنگ کے لیے تیار ہوجائو۔