زخموں کا طریقہ علاج

486

صحیحین میں ابوحازم سے روایت ہے کہ،

احد کی جنگ میں رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک مجروح ہوگیا، آپؐ کے اگلے دانت ٹوٹ گئے اور تلوار کا زخم سر میں لگا۔ آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ خون دھوتی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ ان زخموں پر پانی ڈھال سے بہاتے تھے۔ جب فاطمہ (رض) نے دیکھا کہ خون رکنے کے بجائے اور زیادہ بہہ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلادیا، جب وہ راکھ ہوگیا تو آپ نے زخموں پر انہیں چپکا دیا، جس سے خون بند ہوگیا۔

گون (ایک دریائی گھاس) کی بنی ہوئی چٹائی کی راکھ سے خون بڑی عمدگی سے بند ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں خشک کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے زخموں میں چبھن بھی نہیں ہوتی کیونکہ جو دوائیں خشک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اگر ان میں خلش کا اندازہ ہو تو اس سے خون میں جوش آجاتا ہے اور اس خلش سے خون کی ریزش بڑھ جاتی ہے۔ چٹائی کی راکھ کا تو اس درجہ کرشمہ دیکھنے میں آیا ہے کہ صرف اس راکھ کو یا اسے سرکے میں ملا کر نکسیر کے مریضوں کی ناک میں پھونکہ دیں تو رعاف بند ہوجاتا ہے۔

ابن سینا نے قانون میں لکھا ہے کہ گون کی بنی ہوئی چٹائی سیلان دم میں نافع ہے، اسے روک دیتی ہے، اگر تازہ زخموں پر جن سے خون بہہ رہا ہو چھڑک دیں تو اسے مندمل کردیتی ہے۔ مصری کاغذ قدیم زمانے میں گون ہی سے بنایا جاتا تھا۔ اس کا مزاج خشک و سرد ہے، اس کی راکھ اکلتہ الضم میں مفید ہے، خون کے تھوک کو بند کردیتی ہے اور گندے زخموں کو بڑھنے سے روک دیتی ہے۔