غزوۂ خندق

587

آج پوری دنیا کی غیر مسلم طاقتیں اسلام کے روشن چراغ کو بجھانے کی منظم کوششیں کر رہی ہیں، یہودی، عیسائی اور کفر کی تمام جماعتیں اس مقصد کے لیے متحد ہوچکی ہیں کہ دنیا میں نہ کوئی مسلمان رہے اور نہ مسلمانوں کا تذکرہ، ٹھیک یہی صورتِ حال آج سے چودہ سوچونتیس سال پہلے مدینہ منورہ میں رسولِ اکرمؐ کے ساتھ پیش آئی تھی، قریش اور مشرکینِ مکہ کے علاوہ بنو قریظہ، بنونضیر، بنوغطفان، بنو مرہ، بنو کنانہ، بنو اسد، بنو سلیم، بنو سعد، قبیلہ اسلم، اشجع، فزارہ، اہلِ تہامہ اور عرب کے بعض دیگر قبائل نے مل کر شوال 5ھ میں متحدہ کوشش کی تھی کہ نبوتِ محمدی کی شمع بجھ جائے، اسلام کی اٹھتی ہوئی طاقت نیست ونابود ہوجائے، دنیا سے توحید کے پرستار مٹ جائیں اور رسالت کا چرچہ باقی نہ رہے، اس زمانے کے تمام غیر مسلموں نے ایک ساتھ منظم سازشیں کیں اور اس کے لیے متعدد حربے استعمال کیے؛ مگر رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ نے اپنی دانشمندی، دور بینی، ایمانی قوت، انتھک محنت اور جدوجہد کے ذریعے سے یہ ثابت کردکھایا کہ
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
آج عا لمِ اسلام یہودی اور عیسائی طاقتوں کے نر غے میں ہے، الحاد ودہریت کی مسموم ہوا ئیں ہر طرف چل رہی ہیں، اسلام کی مخا لفت میں ایک طو فان برپا ہے۔ مو جو دہ عا لمی حا لات میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ باطل سازشوں کو نا کام بنا نے کے لیے غزوۂ احزاب وخندق کے اسوہ کو اختیار کریں، رسولِ اکرمؐ نے کفرکی بھاری جمعیت کو شکست دینے کے لیے جو راہ اختیار کی یقینا وہی راہ آج بھی راہِ نجات ہے۔ کتبِ سیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے، ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کیں، جو بڑے بڑے دانشمندوں کے تصور وخیال سے بالا تر ہیں، اس وقت کے مشرکین اور بعد کے مؤرخین اور فوجی جنرلوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پیغمبرِ اسلامؐ نے اس موقع پر جو تدابیراختیا ر کیں، ان سے بہتر اور کوئی تدبیر نہیں ہوسکتی، مسلمانوں کے لیے اس واقعے میں بڑی عبرت پوشیدہ ہے۔
تاریخِ اسلام سے وا قف ہر شخص جانتا ہے کہ غز وۂ احزاب میں کفار کی مختلف جماعتیں متحد ہو کر مسلمانوں کو ختم کردینے کا معاہدہ کرکے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں۔ قرآنِ کریم نے ان متحدہ طاقتوں کی سازشوں کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے۔ ترجمہ: ’’جب دشمن اوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آ ئے، جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آگئے اور تم لوگ اللہ کے با رے میں طرح طرح کے گمان کر نے لگے‘‘۔ (الاحزاب :10)
اس غزوے کا سبب سیرت نگاروں نے یہ بیان کیا ہے کہ شرارت کی وجہ سے جب نبی کریمؐ نے بنو نضیر کو جلا وطن کردیا اور یہ لوگ مدینہ سے نکل کر خیبر میں قیام پذیر ہوئے تو انھوں نے ایک نہایت عظیم الشان سازش شروع کی، ان کے رؤسا میں سے حْی بن اخطب، سلام بن ابی الحقیق کنانہ بن ربیع وغیرہ 5ھ میں مکہ مکرمہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے استیصال کے لیے جنگ پر آمادہ کیا، دونوں کے آپسی معاہدہ کے بعد بنو نضیر کے مذکورہ افراد عرب کے ایک بڑے اور جنگ جو قبیلہ بنو غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو خیبر کے نخلستانوں کی نصف پیداوار کی طمع دے کر ہم خیال بنالیا۔ غطفان کے تمام قبائل بھی ساتھ ہوگئے، اس طرح ابو سفیان کم وبیش دس ہزار آدمیوں کی بھاری جمعیت اور وسائل کی فروانی کے ساتھ شوال 5 ہجری میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔ جب نبی کریمؐ کو دشمنوں کی نقل وحرکت کا علم ہوا تو حسبِ معمول آپؐ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ فرمایا۔ سیدنا سلمان فارسیؓ نے عرض کیا کہ ہم اہلِ فارس کا دستور یہ ہے کہ ایسے موقع پر خندق کھود کر دشمن سے خود کو محفوظ کرلیتے ہیں اور اس کو مجبور بنا دیتے ہیں۔ نبیِ کریمؐ نے اس مشورے کو قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دے دیا، مدینہ میں تین جانب سے مکانات اور نخلستان کا سلسلہ تھا جو شہر پناہ کا کام دیتا تھا۔ صرف شامی رخ کھلا ہوا تھا، اس طرف آپؐ نے خود حدود قائم کیے، داغ بیل ڈال کر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کی گئی، خندق کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے تین میل تھی، چوڑائی اتنی تھی کہ ایک تیز رفتار گھوڑا عبور نہ کرسکے اور گہرائی ایک اندازے کے مطابق پانچ گز تھی۔ اس وقت مسلمان فوج کی تعداد کل تین ہزار تھی اور کل چھتیس گھوڑے تھے، معاملہ بہت سنگین تھا۔ سنگلاخ زمین تھی، موسم سرد تھا، کھانے پینے کے سامان مہیا نہیں تھے، صحابہ کرامؓ نے انتہائی صبر اور استقامت کا ثبوت دیا۔ ان کی زبان پر یہ اشعار جاری تھے۔
ترجمہ: ’’ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی بھر کے لیے محمدؐ کے ہاتھ پر جہاد کی بیعت کرلی ہے‘‘۔
’’خدا کی قسم! اگر خدا کی ہدایت رہنمائی نہ کرتی تو ہم کو نہ ہدایت نصیب ہوتی اور نہ ہی صدقہ ونماز‘‘۔
سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور دوسرے اکابرصحابہؓ خندق کھودنے میں برابر کے شریک تھے۔ اپنے دامن میں مٹی اٹھا کر باہر پھینکتے، جس سے گرد وغبار نے جسم کو چھپا لیا تھا، صحابہ کرامؓ کے نہ چاہتے ہوئے بھی رسول اللہؐ نے ان کی دلجوئی اور امت کی تعلیم کے لیے اس سخت ترین محنت ومشقت میں برابر کا حصہ لیا۔ بھوک سے آپؐ کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ اتفاق سے سیدنا سلمان فارسیؓ کے حصے میں پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی جس کا توڑنا عام لوگوں کے بس کی بات نہ تھی، آپ کو اس کا علم ہوا تو کدال اپنے دست مبارک میں لے کر یکے بعد دیگرے تین ضرب لگائی، تیسری مرتبہ یہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ پتھر پر کدال مارنے سے جو روشنی نکلی اس میں یمن اور کسریٰ کے شہروں کے محلات دکھلائے گئے اور جبرئیلؑ نے ان شہروں کے فتح ہونے کی بشارت دی ہے، اس طرح چند روز میں خندق تیار ہوگئی، مسلمان خندق کھود کر فارغ ہوئے تھے کہ ابوسفیان دس ہزار لشکر لے کر اْحد کے قریب پہنچ گیا، رسولِ اکرمؐ بھی تین ہزار مسلمانوں کے ہمراہ مقابلے کے لیے کوہ سلع کے قریب جاکر ٹھہرے اور تمام بچوں اور عورتوں کو مدینہ کے ایک قلعے میں محفوظ کردیا اور مسلمانوں کے درمیان خندق حائل تھی، جب ابو سفیان کو خندق کا علم ہوا تو بے اختیار بول اٹھا۔
’’اللہ کی قسم! یہ ایک زبردست تدبیر ہے جسے عرب نہ جانتے تھے‘‘۔
ایک روز مقابل کفار نے تیر اندازی اور پتھراؤ کے ذریعے سے اجتماعی طور پر اتنی شدت سے حملہ کیا کہ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی چار نمازیں قضاء ہوگئیں، اسی دن عرب کے چند مشہور بہادر خندق عبور کرکے مسلمانوں کی طرف آگئے تھے جن میں عمرو بن عبدود اور نوفل بن عبداللہ وغیرہ شامل تھے۔ سیدنا علیؓ مقابلے میں نکلے اور عمرو بن عبدود کو جہنم رسید کیا، نوفل بھاگتے ہوئے خندق میں گرا، اسے بھی سیدنا علیؓ نے مار ڈالا، کفار نے نوفل کی لاش پیسہ سے طلب کی؛ لیکن رسولؐ نے مفت دے دی، مستورات جس قلعہ میں تھیں، وہاں تک ایک یہودی موقع کی تلاش میں پہنچ گیا۔ آپؐ کی پھوپھی سیدہ صفیہؓ کی نگاہ پڑی، تو خیمے کی ایک لکڑی سے اس زور سے اس کے سر پر ضرب لگائی کہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔ محاصرہ جس قدر طویل ہوتا جاتا تھا اسلام دشمن فوجوں کی ہمت گھٹتی جارہی تھی، اسی درمیان غیبی مدد کے طور پر قبیلہ غطفان میں سے ایک شخص نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا، پھر حضورؐ کے مشورے سے انھوں نے ایسی تدبیر کی کہ قریش اور بنو قریظہ میں پھوٹ پڑ گئی اور بنو قریظہ قریش کی امداد سے دست کش ہوگیا۔ اس طرح افواج کفار کی طاقت کمزور پڑ گئی، دوسری مصیبت یہ آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک سخت اور سرد ہوا ان پر مسلط کردی جس نے ان کے خیمے اکھاڑ پھینکے، ہنڈیاں چولہوں سے الٹ دی، غبار اْڑ اْڑ کر آنکھوں میں بھرنے لگا، جس سے کفار کا تمام لشکر سراسیمہ ہوگیا۔ اس غیبی مدد کا ذکر قر آنِ کریم نے اس طرح بیان کیا ہے۔
ترجمہ: ’’جب لشکر تم پر چڑھ آ ئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں اور اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لو گ اس وقت کر رہے تھے‘‘۔ (الاحزاب :9)
سیدن حذیفہؓ جن کو آپؐ نے کفار کے لشکر کا پتا لگانے بھیجا تھا، ان کا بیان ہے کہ آندھی اور طوفان کے بعد ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب یہ ٹھہرنے کا مقام نہیں ہے، ہمارے جانور ہلاک ہوگئے، چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا مشکل ہوگیا ہے، بنوقریظہ نے بھی ہمار ا ساتھ چھوڑ دیا؛ اس لیے اب گھر واپس چلو! یہ کہہ کر ابوسفیان اونٹ پر سوار ہوا اور چل دیا ،دیگر تمام فوجیں بھی واپس ہوگئیں، اس طرح مسلمانوں کو طویل مشقت کے بعد فتح حاصل ہوئی۔ رسول اکرمؐ کو جب کفار کے جانے کی اطلاع ملی تو فرمایا:
’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر چڑھائی نہیں کرسکیں گے ہم ہی ان پر حملہ کے لیے چلیں گے‘‘۔
چنانچہ بعد میں ایسا ہی ہوا یعنی کفر میں اتنی طاقت نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں پر حملے کے لیے اقدام کرسکے۔ اس کے بعد رسولِ اکرمؐ صحابہ کرامؓ کے ساتھ حمد وثنا بیان کرتے ہوئے مدینہ واپس ہوگئے۔