انسان کا مقصد وجود بندگی رب !

1334

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کو جو شرف ومرتبت اور قدر ومنزلت عطا کی ہے، دنیا کی دیگر مخلوقات اس عزت افزائی سے محروم ہیں۔ انسان کی ذرہ نوازی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے انسان کو پیدا کرنے اور اسے زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر بھیجنے سے متعلق اپنے ارادے کا اظہار فرمایا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔ (البقرۃ)
پھر انسان کی تخلیق کے بعد اس کی عزت افزائی اور اس کی فضیلت کو بیان کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ اس انسان (حضرت آدمؑ) کو سجدہ کرو۔ گویا کہ اللہ کی وہ مخلوق جو سالہا سال سے اسی کی عبادت و ریاضت اور بندگیٔ رب میں مصروف ومشغول تھی، اسے بظاہر ایک چھوٹی سی مخلوق کے سامنے جھکنے کا حکم دے کر اس کی تعظیم وتفضیل بیان کرنا مقصود تھا۔
اس کائنات میں اللہ رب العزت نے کوئی شے بے کار وعبث پیدا نہیں کی۔ بلکہ ہر چیز اپنا مقصدِ وجود رکھتی ہے۔ انسان کو پیدا کرنے، اسے دنیا میں بھیجنے اور اتنے بڑے جہاں میں بسانے کا بھی ایک خاص مقصد ہے۔ اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا‘‘۔ (سورۃ الذاریات)
گویا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد رب کی عبادت اور اس کی بندگی ہے۔ مطلب یہ کہ انسان اپنے روز وشب اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق بسرکرے۔ ہر اس کام کو کرنا اس کے لیے جائز ہوگا جس کی اجازت رب نے اسے عطا کی ہے، اور ہر اس کام سے بچنا اس پر واجب ہوگا جس سے احتیاط کا حکم اللہ تعالیٰ نے اسے دیا ہے۔ اس طور پر انسان کے لیے رزق کا حصول، کھانے پینے کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے، ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرنے، اپنی جائز خواہشات کو پورا کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن یاد رکھنی کی بات یہ ہے کہ یہ سارے امور دین کے اصولوں اور طریقوں کے مطابق انجام دیے جائیں گے۔ امام ابن تیمیہؒ عبادت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عبادت ایک جامع لفظ ہے، یعنی ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو خواہ اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اسے عبادت کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ انسان جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے وہ بھی موجبِ ثواب ہے‘‘۔ (فتح البیان)
انسان کو مقصدِ حیات یاد دلانے اور اس پر کار بند رکھنے کے لیے ہر دور میں انبیا اور رسول آتے رہے ہیں۔ سورہ نحل میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اور تحقیق ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا اور اس کے ذریعے سے ہم نے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی اختیارکرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو، اس کے بعد ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دے دی اور بعض پر ضلالت مسلط کردی‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دنیا میں جیتے ہوئے انسان پر یکساں حالات نہیں رہتے۔ لیل ونہار کے گزرنے کے ساتھ انسان کی زندگی میں تغیر وتبدّل اور مختلف حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ اللہ کا مطلوب انسان وہی ہے جو زندگی میں ہر موڑ پر، ہر قسم کے حالات میں رب کی بندگی بجا لاتا رہے، اسی سے آس لگائے، اسی کے سامنے عاجزی کا اظہار کرے، ہر کیفیت میں رب کی عطا اور اس کی رضا پر راضی رہ کر اس کی عبادت اور بندگی کرتا رہے۔ گویا کہ پھر جب بندہ رب کی عبادت کا مفہوم سمجھ کر زندگی گزارنا شروع کرتا ہے تو پھر اس کا جینا اور مرنا فقط رب العالمین کے لیے قرار پاتا ہے۔
طبرانی میں روایت ہے، براءؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جانتے ہو ایمان میں سب سے مضبوط عمل کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا نماز، فرمایا بے شک نماز کا تو کیا کہنا ہے لیکن اس کا دائرہ دوسرا ہے۔ ہم نے عرض کیا تو پھر روزے، آپؐ نے اس پر بھی یہی فرمایا یہاں تک کہ ہم نے جہاد کا نام لیا تو اس پر بھی آپؐ نے وہی ارشاد فرمایا، اس کے بعد کہا، سب سے مضبوط عمل یہ ہے کہ خدا ہی کے لیے دوستی اور خدا ہی کے لیے دشمنی، اسی کے نام پر محبت اور اسی کے نام پر بغض رکھنا‘‘۔
کیوں کہ مقصدِ حیات بندگیٔ رب ہی ہے۔ اگر انسان کی زندگی سے اپنے خالق کی عبادت اور بندگی کو خارج کردیا جائے تو پھر اس کے اشرف المخلوقات کہلانے اور خود کو افضل المخلوقات سمجھنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔
سیدنا ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کرلے، میں تیرا سینہ مالداری اور غنیٰ ( بے نیازی) سے بھر دوں گا۔ اور تیری محتاجی کو تجھ سے دور کردوں گا۔ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے دونوں ہاتھوں کو دنیا کے دھندوں اور کاموں سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی کو بھی دور نہ کروں گا‘‘۔ (جامع ترمذی)
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اپنے مقصدِ حیات کو سمجھتے ہوئے اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کرے۔ اسی میں انسان کی معراج بھی ہے اور فوز وفلاح بھی۔