رحماء بینھم… ایک اہم صفت

340

وہ بنیادی صفات،جن کی بنیادپر اخوان(اخوان المسلمون) کی تعمیر و تربیت ہوئی، ان میں سے ایک اہم صفت اللہ کے لیے محبت اور بھائی چارگی ہے۔ خود اس تحریک کا نام اسی مفہوم پر مشتمل ہے۔ یعنی الاخوان السلمون (مسلم بھائی) امام البنا نے اخوت اور بھائی چارے کو بیعت کا ایک اہم رکن قرار دیا۔ اس کی تشریح وہ یوں کرتے ہیں:
’’بھائی چارے سے مراد یہ ہے کہ ہم محض رشتے و عقیدے کی بنیاد پر باہم ایک جان دو قالب ہوجائیں۔ کیونکہ عقیدہ ہی سب سے زیادہ قوی اور قیمتی رشتہ ہے اور اخوت ایمان کا لازمہ اور افتراق و عداوت کافر کا خاصہ ہے۔ علاوہ ازیں سب سے اولین قوت وحدت کی قوت ہے اور محبت کے بغیر وحدت کہاں؟ یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ محبت کا سب سے کم تر درجہ ہے دل کا کدورت سے پاک ہونا، جبکہ اس کا سب سے بلند درجہ ہے ایثار کرنا اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دینا۔
’’جو اپنے دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (تغابن: 16)
’’ہمارے مخلص بھائی کو سمجھنا چاہیے کہ اس کے اوپر دوسرے بھائیوں کا خود اس کی اپنی ذات سے زیادہ حق ہے، کیونکہ اگر وہ ان کا نہ ہوسکا تو کسی اور کا کیا ہوگا؟ اسی طرح اور بھائی اگر اس کے اپنے ہوگئے تو پھر دوسروںکے بھی ہوسکیں گے۔ بھیڑیا ہمیشہ اسی بکری کو کھاتا ہے جو گلہ سے دور ہو۔ یہی حال مؤمنین کا ہے۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی عمارت ہو کہ ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط رکھتا ہے:
’’مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں‘‘۔ (توبہ: 71)
ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اسی طرح رہیں اور اپنے عمل سے بالکل اسی اندازکا نمونہ پیش کریں۔
میں نے امام شہید کو ایک بارکہتے سنا:
’’ہماری دعوت تین بنیادوں پر قائم ہے۔ گہرے فہم، مضبوط ایمان اور پائیداد محبت پر‘‘۔
امام تحریک کے مرکز میں اپنی ہفتہ وار گفتگو ’’مجلس سہ شنبہ‘‘ میں تقریر کا آغاز ترغیبی کلمات سے کرتے تاکہ تحریک کے کارکنان محبت و اخو ت کے بندھن میں بندھ جائیں اور یک جان دو قالب ہو جائیں۔ مرحوم اس سلسلے میں نصوص اور سلف صالح کے واقعات سے بھی مدد لیتے جسے وہ ’’محبت سہ شنبہ‘‘ کا نام دیتے۔دور ونزدیک کا ہر فرد جانتا تھا کہ اخوانی کارکنان میں کس قدر باہمی محبت اور مضبوط رشتہ ہے اور وہ حدیث نبویؐ کی منشا کے کس قدر مشابہہ ہیں۔مومن مومن کے لیے عمارت کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت پہنچاتا ہے۔ یہ کارکنان باہمی الفت، بھائی چارہ اور اخوت میں ایک ہی خاندان کے متعدد افراد سے کس قدر مشابہہ ہیں! بلکہ ان سب کی حیثیت ایک جسم کی سی ہے۔ جس کے کسی عضو میں تکلیف ہوجائے تو پورا بدن اس کا کرب محسوس کرتا ہے۔
کسی صحافی نے اخوان کے آپس کے تعلقات کو دیکھا تو پکار اٹھا:
’’یہ وہ جماعت ہے جس کے کسی کارکن کو اسکندریہ میں چھینک آئے تو اسوان سے یرحمک اللہ کی دعائیں سنی جاتی ہیں‘‘۔
واحد قومیت
اخوان نے قومیت، وطنیت، لسانیت یا طبقہ واریت کے سارے بتوں کو پاش پاش کردیا۔ انہوں نے انسانی تعلقات کے درمیان حائل تمام رکاوٹوں کو ختم کردیا، انسانوںکو ایک دوسرے سے دور رکھنے والے تمام امتیازات مٹا ڈالے۔ صرف اسلام کی اخوت باقی رہی۔ اسلام کا رشتہ بچا رہا جو دوسرے تمام رشتوں پر چھا گیا۔
ابی الاسلام لا اب لی سواہ
اذا افتخروا بلقیس اوتمیم
’’میرا باپ اسلام ہے اس کے سوا میرا کوئی باپ نہیں۔ حالانکہ لوگ قیس اور تمیم کے رشتے پر فخر کرتے ہیں‘‘
اخوان کی دور میں انجینئر و مزدور، ڈاکٹر و مریض، مدرس و کسان، شہری و دیہاتی، بزرگ و جواں، خورد وکلاں غرضیکہ معاشرے کے سارے طبقے اور ہر عمر کے لوگ شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔ جن کے درمیان صرف دینی محبت و اخوت کا رشتہ تھا جو اس سے پہلے اصحاب رسول میں جنس و نسل اور طبقے و قوم کے اختلاف کے باوجود پایا جاتا تھا۔ سچ کہا ہے اللہ نے:
’’مؤمن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں‘‘۔
قاہرہ میں اخوان کا عوامی مرکز ایک عالمی گھرانہ تھا۔ جس میں جنس و وطن کے سارے بھید بھائو ختم ہوجاتے تھے۔ صرف ایک رشتے کی وہاں گنجائش تھی جو سب سے پائیدار اور مضبوط رشتہ ہے اور وہ رشتہ ہے تقویٰ کا، اسلام کا، خدا پرستی اور خدا ترسی کا۔
اس مرکز میں عربی بھی آتے تھے اور عجمی بھی، افریقی بھی،ایشیائی بھی، شامی بھی اور مغربی بھی۔ کالے بھی اس سے فائدہ اٹھاتے تھے اور گورے بھی، سرخ بھی، زرد بھی، یہ سب مختلف ملکوں سے آئے تھے۔ مختلف جنس و نسل کے مالک تھے۔ متنوع زبانوںکے حامل تھے بلکہ بسا اوقات ان کے ممالک آپس میں باہم دست و گریباں تھے، لیکن یہاں اس ’’گھرانہ‘‘ میں اتحاد اسلامی کے رمزو نشاں، ’’دارالاخوان‘‘ میں سب بھائی بھائی بن جاتے تھے اور یہ اخوت تاحیات قائم رہتی تھی۔ان میں بہت سے مصری اخوانی بھائیوںمیں مدغم ہوکر ان کا ایک فرد بن گئے تھے۔ اگرچہ جنسیت کے لحاظ سے وہ افغانی، عراقی یا ہندوستانی یا کسی اور ملک سے تعلق رکھنے والے تھے۔
ان فاضل بھائیوں میں عبداللہ عقیل، ہارون المجددی اور محمد مصطفی اعظمی کا نام مجھے ابھی تک یاد ہے۔ مؤخر الزکر دونوں بھائی 1954ء میں اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ جنگی قید خانے میں بھی گئے اور وہاںکی سزائوں اور تکلیفوںکا مزہ چکھا اور ناصری ظلم و طغیان کے سامنے ان کی جنسیت کا اختلاف بھی انہیں خاموش تماشائی کی حیثیت سے رہنے پر مطمئن نہ کرسکا۔
عظیم داعی اسلام ڈاکٹر مصطفی الساعیؒ نے مجھ سے ایک واقعہ بیان کیا کہ ’’اپنی زندگی کے آخری برسوںمیں جب مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو اس کے علاج کے لیے مجھے یورپ جانا پڑا۔ میں ہوائی جہاز سے جس شہر میں بھی اترتا وہاں مختلف الاجناس نوجوانوں کو اپنے انتظارمیں پاتا۔ وہ میری ضروریات اور پسند کی تمام چیزیں اور انتظامات مہیا رکھتے‘‘۔ وہ یہ واقعہ بیان کررہے تھے اور آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی ہوئی تھی کہہ رہے تھے۔ ’’بخدا میں ان میں سے کسی کو پہچانتا نہ تھا، کسی سے میری ملاقات بھی نہ تھی، لیکن عقیدے کی اخوت اور دعوت کا رشتہ جس کی برکتوں سے اللہ تعالیٰ کبھی ہمیں محروم نہ کرے، ایسا مضبوط تھا جس نے مجھے یہ احساس کرنے پر مجبور کردیا کہ گویا میں برسوںسے ان کا دوست رہا ہوں اور وہ میرے پرانے شناسا رہے ہیں‘‘۔