طالبان امین، افغان فوج لٹیری

413

افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء اور بگرام ائر بیس کو افغان حکام کے حوالے کرتے ہی صورتحال واضح ہوگئی کہ کون افغانستان کا وارث ہے اور کون افغانستان میں محض اپنے مفادات کے لیے براجمان ہے۔ طالبان نے 715 امریکی گاڑیوں اور اسلحے پر قبضہ کیا ان میں بارودی سرنگوں سے محفوظ رکھنے والی 21 گاڑیاں بھی شامل ہیں۔یہ دعویٰ تو امریکی میگزین نے کیا ہے لیکن اس میں خبر سے زیادہ تشویش کا پہلو ہے۔ اسی طرح بی بی سی نے شر انگیزی کی ہے کہ پاکستان اتحادی افواج کی واپسی کے لیے فضائی راستہ فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان کو ایسا کرنا ہی تھا یہ افغان امن کے لیے ضروری ہے کہ غیر ملکی افواج وہاں سے نکل جائیں اور انہیں محفوظ راستہ دینا اب تک معاہدے کے مطابق ہی ہے۔ لیکن دوسری جانب بگرام بیس ہاتھ میں آتے ہی افغان فوجیوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔ راتوں رات پورا ڈپو کباڑیوں کو بیچ ڈالا اور رہائشی علاقوں میں سامان پر قبضہ کر لیا۔ کروڑوں ڈالر کی فوجی گاڑیاں اور ورزش کا سامان بھی فوجیوں نے اپنے گھروں میں منتقل کر لیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکی فوج تمام آلات کو ناکارہ کر گئی ہے صرف برتن درست حالت میں ملے ہیں۔ ان رویوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان کا وارث کس کو ہونا چاہیے۔ طالبان امریکی اشیا یعنی مال غنیمت کو محفوظ کر رہے ہیں اسے امارت اسلامیہ افغانستان کا اثاثہ بنا رہے ہیں اور افغان فوجیوں نے راتوں رات سامان کباڑیوں کو بیچ ڈالا اور یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کباڑیوں کو سامان بیچا ہے یا وہ بھی طالبان کے حوالے کرکے کچھ رقم وصول کر لی ہے۔ جنگوں میں ایسا بھی ہوتا ہے اور افغانستان میں تو یہ مشاہدے میں رہا ہے کہ پورا پورا گروہ راتوں رات طالبان سے جا ملا۔ افغانستان سے انخلاء کے ساتھ ساتھ امریکی خلجان اور غصے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک جانب وہ طالبان سے معاہدہ کرکے افغانستان سے انخلاء کر رہے ہیں اور دوسری جانب کبھی فضائی حملوں کی دھمکی دیتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں القاعدہ اور دیگر پر حملوں کا اختیار ہے۔ یہ خبر تو پاکستانی اخبار کی ہے اور وہ بھی ایسے ذرائع سے جن کو مستند نہیں کہا جاسکتا بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی پیغام پہنچانے کی کوشش ہے۔ ایسی خبروں سے افغانستان کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا یہ صرف پاکستانیوں کے لیے جاری کی گئی ہے۔ اب اگر امریکیوں کے اس دعوے کو دیکھا جائے کہ ہمیں القاعدہ اور دیگر پر حملوں کا اختیار ہے۔ تو یہ کون سی ایسی بات ہے۔ اختیار تو انہیں پہلے بھی تھا بعد میں بھی رہے گا۔ 20 برس یہ اختیار استعمال تو کر لیا اب اور کیا چاہتے ہیں۔ اور خبر جاری کرنے والے یا دعویٰ کرنے والے امریکی یہ بھی بھول گئے کہ انہوں نے تو افغانستان سے القاعدہ کا خاتمہ کر دیا تھا اور داعش کو عراق سے لائے تھے تو ایک مرتبہ پھر القاعدہ کہاں سے آگئی۔ دوسری طرف امریکی صدر جوبائیڈن اس قدر مشتعل ہیں کہ افغانستان کے بارے میں سوال تک سننے کو تیار نہیں۔ ان سے افغان عوام کے تحفظ کی بات کی گئی تو تنک کر کہا کہ افغانوں کو اب اپنا تحفظ خود کرنا ہوگا اور صحافی کو افغانستان پر سوال کرنے سے روک دیا۔ امریکی صدر کی نفسیاتی حالت اس قدر خراب ہے کہ کہتے ہیں کہ میں صرف وہ باتیں کرنا چاہتا ہوں جو خوشی کا باعث ہوں۔ یعنی افغانستان کا ذکر امریکیوں کو رلانے کا باعث ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ مغربی میڈیا اور امریکی زیر اثر گروہ اور لوگ صورتحال کو سنگین ظاہر کر رہے ہیں۔ افغانستان میں جنگ شدید ہونے کی خبر سے یہ تاثردیاگیا ہے کہ وہاں نہایت شدید جنگ ہو رہی ہے۔جس ملک کے 88 فیصد علاقے پر کوئی گروہ قابض ہو تو اس سے شدید جنگ کون کرے گا۔ یہ خبر کیوں چلائی جا رہی ہے کہ افغان عوام پناہ کی تلاش میں ہیں اور پریشان ہیں حالانکہ اس کی کوئی تصدیق کہیں سے نہیں ہو سکی ہے کہ افغان عوام پناہ کی تلاش میں ہیں وہ تو جشن فتح کابل کے منتظر ہیں۔ لیکن پاکستانی وفاقی وزیر غلام سرور کہتے ہیںکہ اب تو پاکستان نے سرحدیں بند کر دی ہیں اب پہلے کی طرح افغان مہاجرین پاکستان نہیں آ سکیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ اب پہلے کی طرح مہاجرین پاکستان نہیں آ سکیں گے۔ وزیر ہوا بازی نے ہوائی اڑا دی۔ ان کے ایک بیان کا خمیازہ پہلے بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔ پی آئی اے کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ اب انہوں نے اسلامی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف بیان دیا ہے۔ پاکستان تو دنیا بھر کے مسلمانوںکا ملک ہے یہاں اگر افغان عوام نہیں آتیں تو کل یہ لوگ کشمیریوں کا راستہ بھی بند کر دیں گے۔ اول تو یہ خبر ہی سرے سے غلط ہے کہ افغان عوام پریشان ہیں۔ اس پر طرہ وزیر ہوا بازی کا بیان ہے کہ پاکستان نے سرحدیں بند کر دی ہیں اب افغان مہاجرین پاکستان نہیں آسکیں گے۔ پاکستانی حکمرانوں نے برسوں افغان مہاجرین کے نام پر عیش کیے ہیں اب اگر وہ حقیقی معنوں میں بھی پریشان ہو کر آئیں تو ان کا راستہ روکنا شرعی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بہرحال افغانستان کی صورتحال واضح ہوتی جا رہی ہے اگلے چند ہفتوں میں امریکی افواج کے جانے سے پہلے ہی ایسا لگتا ہے کہ افغانستان امریکی اثرات سے مکمل آزاد ہو جائے گا۔