بحریہ ٹائون کی رقم پر حکومت سندھ کی نظر

342

حکومت سندھ نے گجرنالہ متاثرین بحالی ہائوسنگ اسکیم کے لیے بحریہ ٹائون سے 30 ارب روپے کے حصول کے لیے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی ہے۔ حکومت سندھ کا موقف ہے کہ گجرنالہ آپریشن سے شہریوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے انہیں گھر دینے اور بحالی کے لیے دس ارب روپے مانگے گئے ہیں جبکہ کراچی میں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبے بنائے ہیں اس پر بھی پانچ پانچ ارب روپے خرچ ہوںگے جبکہ نئی ملیر تیسر ٹائون اسکیم کے لیے بھی دس ارب مانگے ہیں۔ ان درخواستوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت کو گجرنالہ متاثرین کی بڑی فکر ہے اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے فوری طور پر اور طویل مدتی منصوبے بنا کر شہریوں کو ریلیف دینا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بحریہ ٹائون پر جرمانے کی رقم ہی سے 30 ارب روپے طلب کیے گئے ہیں۔ لیکن حکومت سندھ اس طرح تو کرپشن کا ایک اور دروازہ کھول رہی ہے۔ گجرنالے پر کس نے تجاوزات بنوائیں۔ حکومت کا کوئی ذمے دار تو رشوت کھا گیا ہوگا کسی ادارے نے تو لیز دی ہوگی تو پھر جرمانہ اس ادارے اور افراد پر کیا جائے۔ اسی طرح کراچی میں بارش کے پانی کی نکاسی کے منصوبے بنانے کے لیے بحریہ ٹائون کی رقم کی ضرورت کیا ہے حکومت سندھ کے فنڈز کہاں گئے اور یہ فوری اور طویل مدتی منصوبے کب سے بننا شروع ہوں گے ہر سال بارش میں شہر ڈوبتا ہے اور حکومت منصوبے ہی نہیںبنا سکی۔ یہ نئی ملیر تیسر ٹائون اسکیم مکمل کیوں نہیں ہو رہی اس کی جو مدت حکومت نے دی تھی اس کے مطابق لوگوں سے رقم وصول کی گئی تھی اگر یہ مکمل نہیں ہو رہی تو اس کے لیے بھی رقم حکومت سندھ کو مہیا کرنی چاہیے۔ اپنی ساری غلطیوں پر پردہ ڈال کر بحریہ ٹائون کی رقم سے فنڈز حاصل کرکے بھی اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت اس رقم کو بھی اِدھر اُدھر نہیں کر دے گی۔ بحریہ ٹائون جرمانے کی رقم پہلے ہی مشتبہ ہے کہ اس کی جانب سے جرمانے کی قسطیں ادا بھی ہو رہی ہیں یا نہیں۔ اور پھر یہ جرمانہ بحریہ ٹائون کے متاثرین پر خرچ ہونا چاہیے نہ کہ حکومت سندھ کی نالائقی کی سزا ان لوگوں کو دی جائے جو پہلے ہی بحریہ ٹائون کی وجہ سے پریشان ہیں۔