سیاسی و عسکری قیادت کا اہم اجلاس

202

مجلس شوریٰ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اہم ان کیمرہ اجلاس جمعرات کی شام پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں کمیٹی کے چیئرمین اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جانب سے ملک کی سیاسی و پارلیمانی قیادت اور اراکین اسمبلی کو اہم خارجہ امور، داخلی سلامتی، اندرونی چیلنجز، خطے میں وقوع پذیر تبدیلیوں خصوصاً تنازعہ کشمیر اور افغانستان کی حالیہ صورتحال کے حوالے سے جامع بریفننگ دی گئی۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں اخلاص کے ساتھ نہایت مثبت اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ پاکستان کی بھر پور کاوشوں کی بدولت نہ صرف مختلف افغان دھڑوں اور متحارب گروپوں کے مابین مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی بلکہ امریکہ اور طالبان کے مابین بھی با معنی گفت و شنید کا آغاز ہوا۔ افغانستان میں پائیدار امن و استحکام در اصل جنوبی ایشیا میں استحکام کا باعث بنے گا۔ پاکستان افغانستان میں عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہر سطح پر خیر مقدم کرے گا اور افغان امن کے لیے اپنا ذمہ دارانہ کردار جاری رکھے گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پاکستان کی سرزمین افغانستان میں جاری تنازع میں استعمال نہیں ہو رہی اور اس امید کا بھی اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کا 90 فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے،جب کہ کسٹمز اور بارڈر کنٹرول کا بھی موثر نظام تشکیل دیا جا رہا ہے۔ سیاسی و پارلیمانی قیادت نے بریفننگ پر اطمینان کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ شرکاء کے بعض سوالات کے جواب مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی دیئے ۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور دیگر سیاسی و پارلیمانی رہنمائوں نے عسکری قیادت کی جانب سے دی گئی اس بریفننگ پر مجموعی طور پر اطمینان اور افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور بریفنگ کو مفید، مثبت اور جامع قرار دیا۔ بریفننگ میں ارکان کو عسکری قیادت سے سوالات کا موقع بھی دیا گیا جس سے مختلف امور کی وضاحت میں مدد ملی ارکان نے اپنی تجاویز اور سفارشات بھی پیش کیں جن کو قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل میں اہمیت دینے کی یقین دہانی کرائی گئی قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا یہ اجلاس اختلاف و انتشار کی سیاسی و پارلیمانی فضا اور ماحول میں ایک مثبت اور قابل قدر پیش رفت ہے، ایسے اجلاسوں سے سیاسی و عسکری قیادت کے مابین باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں اور اندرون و بیرون ملک قومی یکجہتی ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق کا مفید و مثبت پیغام جاتا ہے اور ملکی مفاد کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رکھتے ہوئے حکمت عملی تشکیل دینے کا تاثر ابھرتا ہے۔ایسے اجلاس نہ صرف اہم قومی امور میں قومی اتفاق رائے کو فروغ دینے، مختلف سوچ کے حامل مکاتب فکر کو قریب لانے اور قومی معاملات میں ہم آہنگی کو تقویت دینے کا باعث بھی بنتے ہیں بلکہ ان سے دو طرفہ غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملتا ہے اور باہمی اعتماد میں اضافہ بھی ہوتا ہے، اس لحاظ سے یہ اجلاس اور اس میں دی گئی بریفنگ یقیناقومی یکجہتی کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گا تاہم جیسا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور بعض دیگر شرکاء نے بھی اعتراض اٹھایا کہ وزیر اعظم عمران خاں اس قدر اہم اجلاس میں کیوں شریک نہیں ہوئے ؟ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کے جواب میں وضاحت کی کہ ہمیں قومی مفاد مقدم ہے اور میں اجلاس میں وزیر اعظم کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ یہ درست ہے کہ وزیر خارجہ ہی نہیں کابینہ میں ان کے کم و بیش نصف درجن کے قریب دیگر وزراء بھی اس اہم اجلاس میں شریک تھے تاہم وزیر اعظم کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور طویل عرصہ کے بعد ہونے والے اس نہایت اہم اجلاس میں وزیر اعظم کی بلاوجہ غیر موجودگی کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وزیر اعظم کو اس اجلاس میں شریک ہونا چاہئے تھا، ان میں حزب اختلاف کی قیادت کا سامنا کرنے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور سننے کی ہمت ہونی چاہئے، وہ عام طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اس وجہ سے شریک نہیں ہوتے کہ وہاں حزب اختلاف کی قیادت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی عدم شرکت کے لیے یہ کوئی معقول جواز نہیں تاہم قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا یہ اجلاس اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد تھا جس میں نظم و ضبط بھی تھا اور اسمبلی کی کارروائی کے دوران عموماً دیکھی جانے والی ہنگامہ آرائی اور بدمزگی سے محفوظ تھا ایسے اہم اجلاس میں وزیر اعظم کی شرکت ضروری ہے۔ شرکاء نے اجلاس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ایسے اجلاس طویل وقفوں کے بغیر جلدی جلدی منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا چنانچہ عسکری قیادت کی جانب سے آئندہ عید الاضحی سے قبل یا فوری بعد اسی نوعیت کا ایک اور اجلاس منعقد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے توقع کی جانا چاہئے کہ وزیر اعظم اس متوقع اجلاس میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں گے…!!!