رسائل و مسائل

گناہ سے توبہ
کسی شخص سے بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہوجائے، اگر وہ سچے دل سے توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے۔ قرآن کریم میںہے: ’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے‘‘۔ (النساء: 48)
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے نبی! کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور، رحیم ہے‘‘۔ (الزمر: 53)
گناہ کی معافی اور بخشش کے لیے شرط یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے پر پشیمان ہو، اْس برے عمل سے بالکل تعلق ختم کرلے اور پختہ عزم کرلے کہ آئندہ اس سے دْور رہے گا اور اس سے بالکلیہ اجتناب کرے گا۔ (ریاض الصالحین للنووی، باب التوبہ)
گناہ کی بخشش کے لیے صرف توبہ کافی ہے۔ اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے، ہاں صدقہ وخیرات اور دیگر نیک کام کرنے سے بعض گناہوں کا ازالہ ہوتا ہے اور ان کے اثرات محو ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
’’درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دْور کردیتی ہیں‘‘۔ (ہود: 114)
٭…٭…٭
میراث کا ایک مسئلہ
سوال: ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ دوسری شادی کے وقت دوسری بیوی نے یہ شرط رکھی کہ جائداد اس کے نام کردی جائے۔ چنانچہ انہوں نے جائداد اس کے نام منتقل کردی۔ کچھ عرصے کے بعد اس عورت کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کی کئی اولادیں ہیں۔ اب وہ صاحب تیسری شادی کرنا چاہتے ہیں۔ براہِ کرم بتائیں کہ اب اس جائداد پر کس کا حق ہوگا؟ کیا وہ جائداد تیسری بیوی کو دی جاسکتی ہے؟
جواب: اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس نے عورت کو بھی ملکیت کا حق دیا ہے۔ شوہر نے اپنی جائداد دوسری بیوی کے نام کردی تھی تو اس پر شوہر کا حق ختم ہوگیا اور اس کی مالک بیوی ہوگئی۔ اس کے انتقال کے بعد اب شوہر کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اس جائداد کو تیسری بیوی کے نام منتقل کردے۔ بلکہ اس کی تقسیم شریعت کے بتائے ہوئے طریقے پر ہونی چاہیے۔
کسی عورت کا انتقال ہو اور اس کے ورثا میں شوہر اور بچے ہوں تو اس کی میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو ایک چوتھائی (پچیس فیصد حصہ ملے گا اور بقیہ میراث اس کی اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر لڑکے کو ہر لڑکی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔