افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

223

اللہ پر ایمان سے
ایمان باللہ انسان کے زاویۂ نظر کو اتنا وسیع کردیتا ہے جتنی خدا کی غیر محدود سلطنت وسیع ہے۔ انسان جب تک دنیا کو اپنے نفس کے تعلق کا اعتبار کرتے ہوئے دیکھتا ہے، اس کی نگاہ اسی تنگ دائرے میں محدود رہتی ہے جس کے اندر اس کی اپنی قدرت، اس کا اپنا علم اور اس کے اپنے مطلوبات محدود ہیں۔ اسی دائرے میں وہ اپنے لیے حاجت روا تلاش کرتا ہے۔ اسی دائرے میں جو قوت والے ہیں ان سے ڈرتا اور دبتا ہے اور جو کمزور ہیں ان پر فوقیت جتاتا ہے۔ اسی دائرے میں اس کی دوستی اور دشمنی، محبت اور نفرت، تعظیم اور تحقیر محدود رہتی ہے، جس کے لیے بجز اس کے اپنے نفس کے اور کوئی معیار نہیں ہوتا۔ لیکن خدا پر ایمان لانے کے بعد اس کی نظر اپنے ماحول سے نکل کر تمام کائنات پر پھیل جاتی ہے۔ اب وہ کائنات پر اپنے نفس کے تعلق سے نہیں بلکہ خداوند عالم کے تعلق سے نگاہ ڈالتا ہے۔ اب اس وسیع جہان کی ہر چیز سے اس کا ایک ہی رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔ اب اس کو ان میں کوئی حاجت روا، کوئی قوت والا، کوئی ضار یا نافع نظر نہیں آتا۔ اب وہ کسی کو تعظیم یا تحقیر، خوف یا امید کے قابل نہیں پاتا۔ اب اس کی دوستی یا دشمنی، محبت یا نفرت اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں جس خدا کو مانتا ہوں وہ صرف میرا یا میرے خاندان یا میری قوم ہی کا خالق اور پروردگار نہیں ہے بلکہ خالق السموٰت والارض اور رب العالمین ہے۔ اس کی حکومت صرف میرے ملک تک محدود نہیں بلکہ وہ مالک ارض وسما اور رب المشرق والمغرب ہے۔ اس کی عبادت صرف میں ہی نہیں کررہا ہوں بلکہ زمین وآسمان کی ساری چیزیں اسی کے آگے جھکی ہوئی ہیں۔ سب اسی کی تسبیح وتقدیس میں مشغول ہیں۔ اس لحاظ سے جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو کوئی اس کو غیر نظر نہیں آتا۔ سب اپنے ہی اپنے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی ہمدردی، اس کی محبت، اس کی خدمت کسی ایسے دائرے کی پابند نہیں رہتی جس کی حد بندی اس کے اپنے نفس کے تعلقات کے لحا ظ سے کی گئی ہو۔ پس جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ کبھی تنگ نظر نہیں ہوسکتا۔
(اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی۔ ص156۔157)
٭…٭…٭
ڈاڑھی
اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ اس زمانے میں منڈی ہوئی ڈاڑھی محض ایک وضع نہیں ہے بلکہ ایک کلچر اور ایک مذہب زندگی کا نمایاں ترین شعار ہے اس شعار کو چھوڑنا دراصل کلچر اور اس مذہب زندگی کو چھوڑنے کا اعلان ہے۔ جس کا یہ شعار ہے اور ڈاڑھی رکھنا کم از کم موجودہ حالات میں تو عملاً اسلام کو ایک کلچر اور ایک مذہب زندگی کی حیثیت سے اختیار کرنے کا ہم معنی ہے۔ یہ ترک و اختیار اس وقت تک حقیقی اور پائیدار نہیں ہوسکتا جب تک فی الواقع آدمی کے نفس میں مغربی کلچر اور مذہب زندگی کا اچھی طرح قلع قمع نہ ہوجائے اور اس کی جگہ اسلامی کلچر اور مذہب زندگی کی جڑیں اچھی خاصی مضبوط نہ ہوجائیں۔ لہٰذا جو لوگ محض سطحی طور پر اخلاقی دباؤ ڈال کر جدید طرز کے نوجوانوں سے ڈاڑھی رکھوانے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اندرونی انقلاب چاہے ہو یا نہ ہو مگر بیرونی انقلاب سے ضابطے کی خانہ پری فوراً کردی جائے وہ بے چارے حقائق سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت دیتے ہیں۔ مگر جہاں یہ تغیر فی الحقیقت ایک گہرے اندرونی انقلاب کا نتیجہ ہو اور اس کے متوازی متقیانہ سیرت کے دوسرے مظاہر بھی ساتھ ساتھ نمایاں ہو رہے ہوں اور ماحول کے غیر اسلامی اثرات سے لڑنے میں بھی پامردی کا ثبوت دیا جارہا ہو، ایسی جگہ اس انقلاب کو محض ایک معمولی چیز قرار دینا اور اسے رسول کی سستی محبت سے تعبیر کرنا صرف انہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو بے چارے رخسار و ذقن کے بالوں سے زیادہ کچھ دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
(ترجمان القرآن۔ ستمبر، اکتو بر 43ء)