سَیّد مْنَوّرحَسن: ایک عہد ساز شخصیت…

252

 

(آخری حصہ)
سید منورحسن صاحب پوری استقامت کے ساتھ اپنے ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے پولیس کے ٹرک پر سوار ہوئے، اگلے دن سارے کارکن اور راہنماء کیمپ جیل اور کوٹ لکھپت جیل میں جمع کردیے گئے، سید صاحب کوٹ لکھپت جیل میں تھے اور مجھے بھی یہاں الحمدْللہ اْن کی رفاقت مْیسر آئی، تین چار دن تک روزانہ مولانا عبدالمالک، سید منور حسن اور دیگر قائدین کے خطابات، ہدایات اور دروس سْننے کا موقع ملا۔ اس کے بعد یہاں سے اسیرانِ واجپائی کو پنجاب بھر جیلوں میں منتقل کرنے کے احکامات آگئے، ہمیں رات کی تاریکی میں پولیس کی گاڑیوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر مختلف شہروں کی طرف روانہ کردیا گیا، تْند خْو اور بدزبان پولیس اہلکاروں کی نگرانی میں 10 سے 14 گھنٹے تک کا سفرکرکے اسیران مختلف شہروں کی جیلوں میں پہنچے،100 کے لگ بھگ کارکنان کو میانوالی جیل پہنچایا گیا، تھوڑی دیر بعد ہی پتا چلا کہ سید منورحسن، عبدالغفار عزیز، میاں مقصود احمد، محمد انور گوندل اور سمیع اللہ بٹ صاحبان بھی یہاں لائے گئے ہیں اور انہیں اْس احاطے میں رکھا گیا جہاں غازی علم الدین شہید کو قید کیا گیا تھا،جمعۃ المبارک کو ہم 100 اسیران نے جیل انتظامیہ سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے انتظامات کا مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کیا کہ نمازِ جمعہ پڑھانے کے لیے منورحسن صاحب کو لایا جائے، ہمارا مطالبہ مان لیا گیا، سید صاحب اور سارے ساتھی بڑے گراؤنڈ میں اکھٹے ہوئے، پہلے منور حسن صاحب نے خطاب کیا اور پھر عربی میں خطبہ ارشاد فرمایا، اْن کی آواز بار بار رْندھ جاتی اور رقت سے اْن کے آنسو بہہ نکلتے، نماز جمعہ کی امامت کے دوران اْن کی تلاوت نے سب اسیران پر رِقّت طاری کردی، ہم جیل میں روزانہ قنوتِ نازلہ پڑھتے اور کبھی مباحثے، کبھی ترانے، کبھی نعتیں اور کبھی عوامی عدالت لگاتے، پھر رات کو نعرے لگاتے تو سید صاحب اگلے روز خوش ہوکر داد دیتے، پھر وہ دن آیا کہ سپریٹنڈنٹ جیل میاں فاروق نذیر نے سید صاحب کو اپنے آفس میں بْلاکر بتایا کہ حکام کی طرف سے ایک تحریر موصول ہوئی ہے، اگر آپ اس پر دستخط کردیں تو سب لوگ رہا ہوجائیں گے۔ اصل میں یہ ایک طرح سے معافی نامہ تھا، جسے دیکھ کر سید صاحب نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئی رہائی نہیں چاہتے، پھر حکام نے سید صاحب سے بات کی کہ آپ خود کوئی تحریر دیدیں جو ہم ہوم سیکرٹری کو بھیج دیتے ہیں تاکہ مسئلہ حل ہو سکے۔۔۔ پھر منور حسن صاحب نے ایک تحریر لکھ کر دیدی کہ ’’ہم جماعت اسلامی کے پْرامن جلسے میں شریک تھے، پولیس نے حکمرانوں کی ہدایت پر ہمارے جلسے میں کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، لہٰذا حکومت ہم سے اپنے جرم پر معافی مانگے اور ہمیں باعزت رہا کرے، قائم مقام قیمِ صوبہ پنجاب اظہر اقبال حسن نے پریس کانفرنس میں دھمکی دی کہ اگر ہمارے تمام راہنماؤں اورکارکنان کو عید الاضحیٰ سے پہلے رہانہ کیا گیا تو رائیونڈ میں شریف حکمران بھی عید نہیں منا سکیں گے، بہرحال 9 ذوالحجہ کو رہائی کا عمل شروع ہو گیا، سید صاحب دن میں دو بجے رہا کردیے گئے لیکن اْن کی اعلیٰ ظرفی دیکھیے کہ رات گئے تک دفتر جماعت اسلامی میانوالی میں اس لیے موجود رہے کہ سارے کارکن رہا ہوجائیں گے تو میں یہاں سے روانہ ہوں گا، ہم سب لوگ رات کو ایک بجے رہا کردیے گئے، سید صاحب منصورہ پہنچے اور اگلے روز نماز عید ادا کرنے کے بعد کراچی روانہ ہوئے۔
سید صاحب نے نواز شریف حکومت کی برطرفی کے فوراً بعد مختلف شہروں کا دورہ کیا اور ہر جگہ اپنے خطاب میں جنرل پرویز مشرف کو مْتنبہ کرتے رہے کہ عوام آپ کے آنے پر نہیں بلکہ نواز شریف کے جانے پر مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں، بس آپ شفاف انتخابات کا انتظام کرکے الگ ہوجائیں لیکن جنرل پرویز مشرف کو اقتدار کا چسکا لگ چکا تھا وہ امریکی ایجنڈے کے مطابق 9/11 کے واقعہ کے تناظر میں اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف تھا، سید صاحب اپنے بیباک لہجے میں جنرل پرویز مشرف کو للکارتے رہے، پاکستان بار ایسوسی ایشن کے فیصلے کے مطابق پورے پنجاب میں ڈیموکریٹک لائرز کنونشن منعقد کیے گئے، سید صاحب کو ان کنونشنوں میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ پنجاب کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز پر بار رومز میں اْنہوں نے نوابزادہ نصراللہ خان، شاہ محمود قریشی، احسان وائیں، محمد لطیف خان کھوسہ محمد رفیق رجوانہ کے ساتھ خطاب کیا، سید صاحب کے خطاب کے دوران مسلسل نعرے لگتے رہتے اور اْن کے خطاب کے بعد کوئی اور مقرر کم ہی جم کر کر بات کرپاتا تھا، جنرل پرویزمشرف کی ایمرجنسی، پھر 3نومبر 2007 کو ایمرجنسی پلس کے خلاف جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک میں سید صاحب نے بہت اہم اور جرأت مندانہ کردار ادا کیا، اْن کا یہ جملہ ’’مشرف نے وردی نہ اْتاری تو پھر چمڑی بھی اْترے گی‘‘ بہت مشہور ہوا، بلوچستان کے راہنماؤں اور افغانستان پر امریکی چڑھائی کے بعد لاپتا ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے سید صاحب کی جدوجہد کی دھوم پورے ملک میں مچی ہوئی تھی، اْنہوں نے اسلام آباد، لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں ہونے والے دھرنوں اور مظاہروں میں بار بار شرکت کی، اسٹیبلشمنٹ اور اداروں کے کردار پر کڑی تنقید کی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر شمشیرِ برہنہ بن کر سامنے آئے، اْنہوں نے خوفِ خْدا کا ایسا طوق اپنے گلے میں ڈال لیا تھا جس نے اْن کو ہر خوف سے آزاد کردیا۔ افتخار محمد چودھری کی بحالی کی تحریک ہو یا عافیہ صدیقی کی رہائی کی جدوجہد، لال مسجد کا خونریز اور اندوہناک سانحہ ہو یا بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں زندہ جلائے جانے والے انسانوں کا مْقدمہ، 12 مئی کو کراچی میں قتلِ عام کا واقعہ ہو یا سانحۂ نشتر پارک۔ سید صاحب ہر محاذ پر پرویز مشرف کے لَتّے لیتے رہے، شیخ خالد محمد کو راولپنڈی سے گرفتار کرنے کے بعد اْس کا تعلق جماعت اسلامی سے جوڑنے اور جماعت پر پابندی لگانے کا فیلر چھوڑا گیا تو سید صاحب نے سید مودودی کی طرح ایک تاریخی بیان جاری کیا کہ ’’جسے چاہیں ہمارے گھروں سے پکڑلیں، جنرل پرویز مشرف کو صدر تسلیم نہیں کریں گے، ہمارا ہر گھر شہداء کا امین اور جہاد کا پشتیبان ہے‘‘۔
سید صاحب نے قاضی حسین احمد صاحب کی معذرت کے بعد امارت کا حلف لینے کے بعد منصورہ میں خطاب کرتے ہوئے دوٹوک اعلان کیاکہ ہم امریکی غلامی سے نجات کے لیے ’’گو امریکا گو‘‘ تحریک چلائیں گے، پاکستان سے امریکا کو واپس جانے اور ہمارے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کے لیے پوری قوم کو ایجوکیٹ کریں گے،
کیونکہ امریکا افغانستان، کشمیر، فلسطین اور مصر اور ہر جگہ ہونے والے ظلم کا مرکزی مجرم ہے، خطے کی صورتحال اور افغانستان میں امریکی ذلت و رسوائی، اْس کی فوجوں کی پسپائی کی خوشخبری سب سے پہلے سید صاحب نے قوم کو سْنائی، اْن کے جْرأت مندانہ مؤقف پرجو قوتیں، ادارے اور نام نہاد تھنک ٹینک چیں بجبیں تھے انہوں نے سر کی آنکھوں سے امریکا کو افغانستان میں، ہندوستان کو کشمیر میں اور اسرائیلی فوج کو فلسطین میں خائب و خاسر ہوتے دیکھا اور اگرچہ اب سید صاحب دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن فکری اور نظریاتی محاذ پر اْن کا مؤقف سو فی صد درست ثابت ہورہا ہے، اسلام اور اسلامی تحریکیں اپنی صداقت پوری دنیا پر واضح کررہی ہیں۔ سید منور حسن صاحب کشمیر میں حزب المجاہدین، افغانستان میں طالبان، فلسطین میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور دنیا بھر میں حریت کی تحریکوں کے سرپرست کے طور پر نمایاں رہے، وہ پرامن جدوجہد اور عوامی رابطے پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے راہنماء تھے انہوں نے جماعت اسلامی کے کارکن کو اپنے پرچم کے سائے تلے جدوجہد کا درس دیا، تعلق باللہ اور نماز کی ہمیشہ تلقین فرمائی، وہ قبرکے گڑھے کو ہمیشہ یاد رکھنے والے، عارف بِاللہ اور جنت کی راہوں کے راہی تھے، 77سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کْوچ کرکے عالمِ جاودانی کے مکیں ہوگئے۔ وہ علامہ اقبال کے ان اشعار کی عملی تصویر اور تفسیر تھے کہ
تْجھ سے ہوا آشکارا بندۂ مومن کا راز
اْس کے دنوں کی تپش، اْس کی شبوں کا گداز
خاکی و نْوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غَنی اْس کا دلِ بے نیاز
نرم دمِ گفتگو، گرم دمِ جستجو
رَزم ہو یا بَزم ہو پاک دل و پاکباز
اْس کے مقاصد جلیل اْس کی اْمیدیں قلیل
اْس کی اَدا دلفریب، اْس کی نگہِ دل نواز
اللہ تعالیٰ سے دْعا ہے کہ وہ سَیّدصاحب کی دین کی سربلندی، مِلّتِ اسلامیہ کے عروج اور اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لیے عظیم الشان جدوجہد کو اپنی بارگاہِ اقدس میں شرفِ قبولیت عطاء فرمائے، اْن کی نماز، اعمالِ صالحہ، عبادت و ریاضت خشوع وخضوع، نالۂ نیم شبی، صداقت و شجاعت اور دنیا سے بے رغبتی کا بہترین اجر عطا فرمائے، اْنہیں انبیاء کرام، صدیقین، شْہداء اور صالحین میں شامل کرکے اپنے مْقرّب بندوں میں شامل فرمائے اور خْلدِ بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔۔۔ آمین ثم آمین