راجا فاروق حیدر کے سنگین الزامات

352

 

وزیراعظم آزاد کشمیر راجا فاروق حیدر نے وزیراعظم پاکستان اور حکمران جماعت پر انتہائی سنگین الزامات لگائے ہیں اور 5 اگست 2019ء کے بھارتی وزیراعظم کے اقدام کے بعد سے عمران خان اور ان کی حکومت کے رویوں کی روشنی میں راجا فاروق حیدر کے الزامات قابل توجہ نظر آتے ہیں۔ راجا فاروق نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ مودی اور عمران خان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم کے رویے کی وجہ سے قومی سلامتی اجلاس کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کردیا۔ راجا فاروق کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کو صوبہ نہیں بننے دیں گے۔ وزیراعظم نے بتائے بغیر کشمیر کا نقشہ تبدیل کردیا۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے بارے میں راجا فاروق حیدر نے کہا کہ وہ کشمیر کے انتخابات میں منی لانڈرنگ کر رہی ہے۔ راجا فاروق کا یہ انکشاف چشم کشا ہے کہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر کو تحریک آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے اور بیس کیمپ میں ہم آہنگی، یکسوئی اور تمام سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ عجیب و غریب بیس کیمپ ہے۔ یہاں برسہا برس سے پاکستانی حکمران جماعت مداخلت کرتی رہی ہے۔ انتخابات میں یا سیاست میں حصہ لینا ہر ایک کا حق ہے لیکن اپنی مرضی کی حکومت مسلط کرنے کے لیے مصنوعی طریقوں سے پیسوں اور دھمکیوں کا استعمال کرنا نہایت غلط حرکت ہے۔ یہ کام کہیں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن پاکستان کے بعد اب آزاد کشمیر میں بھی ہو رہا ہے۔ راجا فاروق کے بیان سے لگ رہا ہے کہ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے لیکن ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ جب پاکستان میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہوتی ہے تو وہ اپنے دور میں آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے آدمی کو وزیراعظم اور صدر بناتی ہے۔ راجا فاروق حیدر بھی اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور کا تحفہ ہیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن جو الزام راجا فاروق نے لگایا ہے اس کے نتیجے میںا نہیں عمران خان اور مودی کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت بھی کرنا ہوگا۔ ورنہ ان کی اپنی پوزیشن خطرے میں پڑ جائے گی۔ مسلم لیگ، پیپلز لیگ اور پی ٹی آئی بھی کشمیر میں پرانی سیاست کر رہے ہیں۔ ان میں سے کسی کی سیاست کے نتیجے میں آزاد کشمیر تحریک آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ نہیں لگتا۔ وزیراعظم آزاد کشمیر نے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے اعلان پر تشویش ظاہر کی ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے۔ گلگت بلتستان کو بھی صوبہ بنایا گیا ہے لیکن اس پر بھی سوالات موجود ہیں۔ مودی اور پاکستانی حکمران اس اعتبار سے تو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کہ وہ کشمیری عوام کو اپنے فیصلوں میں شامل کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ مودی نے 5 اگست کے اقدام کو اپنی پارلیمنٹ سے منظور کرایا لیکن کشمیری عوام کے پاس نہیں گئے کیونکہ مودی کیا نہرو میں بھی کشمیری عوام کے سامنے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ اب مصنوعی طریقوں سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرکے آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔پاکستانی حکومت نے اس اقدام پر جو رویہ روا رکھا اس کی روشنی میں راجا فاروق حیدر کا الزام قرین قیاس لگتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہر ہفتے ایک گھنٹے احتجاجاً سڑکوں پر کھڑے رہنے کا اعلان اور دو تین ہفتوں کے بعد آدھا گھنٹہ کرکے اس کو بھی ختم کر دیا۔ بھارت جس قسم کا عیار دشمن ہے اس کے سامنے تو تمام عمر بھی احتجاجاً کھڑے رہیں اس کی ڈھٹائی میں کوئی فرق نہیں آتا اس لیے عمران خان کے رویے کو دیکھتے ہوئے انہیں اور مودی کو ایک ہی سکے کے دو رخ کہا گیا ہے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران بھی کشمیریوں کو اپنے فیصلوں پر اعتماد میں نہیں لیتے۔ کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق نے اپنے وزیراعظم عمران خان اور مقبوضہ کشمیر کی بھارتی پارٹیوں نے اپنے وزیراعظم مودی پر کم وبیش یکساں الزامات لگائے ہیں۔ اگرچہ بھارتی پارٹیوں کا کشمیری عوام کی نمائندگی کا دعویٰ تو بار بار جھوٹا ثابت ہو چکا ہے لیکن کشمیریوں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے انہوںنے بھی 5 اگست کا اقدام واپس لینے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ پاکستانی حکومت نے بھارتی اقدام پر سنجیدہ جواب نہیں دیا۔ اب جو صورتحال ہے یہی کشمیر کے ہر الیکشن میں ہوتی ہے۔ آج کل پی ٹی آئی اور اس کے اے ٹی ایم کشمیر میں مصروف ہیں۔ لیکن راجا فاروق حیدر اس جانب بھی توجہ دیں کہ کشمیر میں سب سے زیادہ پیسہ کیوں چلتا ہے۔ کشمیر کی حساس پوزیشن سامنے رکھیں تو یہ نہایت تشویش ناک بات ہے۔ پاکستان کی شہ رگ کا معاملہ ہو اور وہاں محض پیسوں کے بل پر حکومت بنائی اورتوڑی جائے یہ پاکستان کے مفادات کے ساتھ نہایت گھٹیا مذاق ہے۔ اسے پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کرنا چاہیے۔