مسائل کا حل، متناسب نمائندگی کا نظام

192

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ایک مرتبہ پھر قومی مسائل کے حل کی جانب توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ متناسب نمائندگی کے قانون کے بغیر حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت نے انتخابی اصلاحات کے نام پر الیکشن ایکٹ 2020ء آئندہ انتخابات میں دھاندلی کے منصوبے کے طور پر جاری کیا ہے۔ الیکشن کمشنر کے تقرر کے بعد ان سے اختلافات پرانی بات اور روایت بن چکے ہیں اس مسئلے کے حل کی بھی سراج الحق صاحب نے تجویز دی ہے کہ الیکشن کمشنر کے تقرر کا اختیار عدالت عظمیٰ کو دیا جائے۔ امیر جماعت اسلامی نے حکومت کی جانب سے الیکٹرونک ووٹنگ، بائیو میٹرک سسٹم اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق کے اعلانات کی حمایت کی۔ محترم سراج الحق قومی و صوبائی سطح پر سیاست اور حکومت دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ پارلیمان میں سیاسی جماعتوں کے رویوں اور قومی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کی خاطر وفاداریاں تبدیل کرتے دیکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ملک کے مسائل کا حل بھی متناسب نمائندگی کے نظام میں ہے۔ لیکن مسئلہ ہے کیا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ پہلے مسلم لیگیں اور پیپلز پارٹی یہ نظام نہیں چاہتے تھے۔ جنرل ایوب، یحییٰ، ضیا الحق اور مشرف تو کوئی نظام ہی نہیں چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تو یہی تھی کہ جو وہ چاہتے ہیں وہی نظام بن جائے اور ایسا ہی ہوتا رہا لیکن ان کے جانے کے بعد آنے والوں نے اپنی مرضی چلائی۔ سیاسی جماعتوں کو بھی درحقیقت کسی نظام سے دلچسپی نہیں ہے۔ وہ تو عام جمہوری نظام کو بھی نظام کے طور پر نہیں چلنے دیتے۔ متناسب نمائندگی کے نظام کے دشمن اور اس کی راہ میں رکاوٹ بھی یہی لوگ ہیں۔ اگر متناسب نمائندگی کا نظام نافذ ہوگیا تو ریلو کٹے قسم کے سیاستدانوں کا کھیل ختم ہو جائے گا۔ جو آج پی ٹی آئی میں شامل ہو کر سابقہ حکمرانوںکو ملک کی تمام خرابیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اور خود اس نظام اور ان حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ متناسب نمائندگی میں وڈیروں، جاگیرداروں اور الیکٹ ایبلز کی سیاست کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن اس کام کے لیے بھی سنجیدہ قسم کی مہم چلانی پڑے گی جیسی اسلامی دستور کے لیے 1950ء کے عشرے میں چلی تھی۔ جہاں تک سمندر پار پاکستانیوں کے ووت کے حق کا تعلق ہے تو اس کا اعلان بھی کم و بیش چالیس برس سے ہوتا آرہا ہے لیکن سمندر پار پاکستانیوں سے ڈالر، پائونڈ اور ریال تو چاہییں ان کو ووٹ کا حق نہیں دیا جاتا اس لیے الیکٹرونک ووٹنگ کا اعلان بھی محض اعلان نہ رہ جائے۔ اس پر سنجیدگی سے عمل کی ضرورت ہے۔