حکومت اپوزیشن تعاون کا مظاہرہ

460

حسب توقع ایک دوسرے کے جانی دشمن وفاقی بجٹ کی منظوری کے موقع پر اس طرح ہم آہنگ ہو گئے جیسے ان کے درمیان کوئی اختلاف یا جھگڑا ہے ہی نہیں۔ پی ڈی ایم میں شامل اہم جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف سمیت اہم اراکین اجلاس سے غائب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی نے بھی رسمی احتجاج کیا اور فنانس بل کے حق میں 172 ووٹ پڑ گئے جو آج کل پی ٹی آئی کی اسمبلی میں قوت مانی جاتی ہے۔ جہانگیر ترین گروپ نامی کسی گروپ کا وجود نہیں نظر آیا۔ آصف زرداری کی سیاست کا کوئی کمال دیکھنے میں نہیں آیا اور پرجوش مسلم لیگ ن نے بھی بجٹ منظور کرانے میں بھرپور تعاون کیا۔ شہباز شریف ہی نہیں آئے تو بجٹ منظوری کے خلاف ارکان کو رہنمائی کون دیتا۔ مسلم لیگ کی ترجمان نے بہت خوب عذر پیش کیا ہے کہ چونکہ کچھ پارٹیوں نے بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور اگر ہمارے سارے ارکان آ بھی جاتے تو بھی ہم 172 سے زیادہ ارکان تو نہیں لا سکتے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان جماعتوں نے بجٹ منظور نہ ہونے دینے کا اعلان کیوں کیا تھا اور کس برتے پر کیا تھا۔ گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دوسرا اہم موقع ہے جب پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کسی قانون یا بل منظوری کے لیے ایک ہو گئے۔ سینیٹ میں گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کا بل منظور کرتے ہوئے تینوں پارٹیاںایک تھیں اس بل میں شرعی قوانین کو بھی پامال کیا گیا اور آئین کی خلاف ورزی بھی کی گئی لیکن مغرب کی نقالی میں یہ سب ایک ہو گئے۔ بجٹ تو ایسی چیز ہے کہ اسے آج تک اپوزیشن نے مسترد نہیں کرایا۔ پی ٹی آئی کے تینوں بجٹ بڑی آسانی سے منظور ہو گئے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رویے کو سامنے رکھیں تو بہت واضح نظر آرہا ہے کہ تینوں پارٹیاں ایک ہی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا مرکز و محور آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف ہے ایسے حکمران طبقے کی موجودگی پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے لیے خطرناک ہے۔ بے ہودہ قسم کے قوانین منظور کیے جا رہے ہیں اور سڑکوں اور ٹی وی چینلز پر شور شرابا کرنے والے ایوان میں بڑی خاموشی سے ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہوتے ہیں۔ بجٹ کا پاس کیا جانا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بجٹ منظوری کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرکے حکمت عملی کے تحت ارکان کو غیر حاضر کیا گیا اور زیادہ ہنگامہ بھی نہیں کیا گیا جو کچھ کیا گیا وہ رسمی تھا۔ تینوں پارٹیوں میں سے کون سی پارٹی ہے جو آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی مخالفت کرے۔ اصل بات عوام کے سمجھنے کی ہے کہ میڈیا اورظاہری شور شرابے پر یقین کرنا بند کریں۔ گزشتہ 25 برس کا کچرا آج کل ایک ہی پارٹی میں شامل ہے تمام یا بیشتر وزرا پہلے پی پی پی یا مسلم لیگ میں رہے ہیں۔ ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد بھی ان دو پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں آئی ہے۔ اگر سابقہ حکمراں اور سابقہ پارٹیاں خرابیوں کی ذمے دار ہیں تو یہ سارے ذمے دار پی ٹی آئی میں آچکے ہیں۔ قوم ان کے دعووں کا تجزیہ کرے، میڈیا کے جعلی طے شدہ ٹاک شوز ان کو گمراہ کرنے کا کام کر رہے ہیں ان سے بھی بچنے کی کوشش کریں، گھریلو تشدد کا بل اور بجٹ منظور کرنے کے بعد ان قوتوں کا اگلا ہدف ایف اے ٹی ایف کی تمام شرائط پر پوری طرح عمل کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ حکمران زبان سے کچھ بھی کہتے رہیں ان کے عمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکمرانوںکا عمل ان کے دعووں کے بالکل برعکس ہے اور اب تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکمران دراصل تین جماعتیں ہیں۔ تینوں مل کر عوام کو دھوکا دے رہی ہیں۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کے خلاف جعلی احتساب اور جعلی مقدمے بازی ایک عدالت سے سزا دوسری سے ریلیف کا ڈراما بھی جاری ہے۔ تین سال میں ان میں سے کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔ ایک زمانہ تھا کہ قاضی حسین احمد نے کہا تھا کہ جب جماعت اسلامی ان حکمرانوں کا محاسرہ کر لیتی ہے تو یہ ایک ہو جاتے ہیں۔ اور آئندہ جب بھی ان کے خلاف عوام کھڑے ہوں گے یہ ایک ہو جائیں گے اور موجودہ امیر سراج الحق نے بھی کم و بیش یہی بات کہی ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھا اشرافیہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس اشرافیہ سے نجات ضرورت ہے۔ اس مافیا سے جان چھڑانا ضروری ہے۔یہ اپنے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتے ہیں۔