انوکھا مجرم

326

جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے میاں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلیں خارج کرنے کا 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میاں صاحب کو فیئر ٹرائل اور استغاثہ کے گواہوں پر جرح کا موقع ملا اور پھر احتساب عدالت نے باقاعدہ سماعت کے بعد سزا سنائی۔ یعنی جولائی 2018ء میں ایون فیلڈ ریفرنس میں 10 سال جبکہ دسمبر 2018ء میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وہ گرفتاری دیں یا پکڑے جائیں تو دوبارہ درخواست دائر کرسکتے ہیں جبکہ میاں نواز شریف سزا یافتہ ہونے کے باوجود ضمانت پر رہا ہوئے اور لندن جا کر مفرور ہوگئے اور اب حق سماعت کھو چکے ہیں، کسی ریلیف کے اب حق دار نہیں رہے، کیونکہ بغیر کسی جواز کے غیر حاضر رہے، اب اپیلیں خارج کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ لہٰذا اب میاں نواز شریف قانون کی نظر میں مفرور بھی ٹھیرے اور مجرم بھی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ بات مکمل طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ میاں صاحب نے جرم کیا ہے اور ان کو سزا ہوچکی ہے تو پھر دوبارہ درخواست دائر کرنے اور عدالت عظمیٰ جانے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ ملک کی جیلوں میں سائیکل چور، موبائل چور، بکری چور اور بھینس چور نجانے کتنے عرصے سے پڑے ہیں ان کی ضمانتیں نہیں ہوتیں، ان معمولی جرائم میں ملوث یہ لوگ سزائیں بھگت رہے ہیں، ان کی صحت خراب ہوجائے تو وہ جیلوں ہی میں اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
میاں نواز شریف جیسا مجرم نہ کبھی کسی نے دیکھا، اور پھر نہ کبھی کسی نے ایسا وی آئی پی انصاف دیکھا جو ہائوس آف شریف کو فراہم کیا جاتا ہے، شریف خاندان وہ واحد حکمران خاندان ہے کہ جس کے لیے چھٹی کے روز بھی عدالت لگا کر ضمانت کی درخواست کی سماعت ہوتی ہے اور پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ قومی خزانہ لوٹ کر بھی یہ خاندان وی آئی پی ٹھیرا، اتفاق فونڈری سے اُٹھے اور آج کئی شوگر ملوں کے مالک، بیرون ملک بے شمار جائدادیں اور اثاثے اور پھر دبئی اور برطانیہ کے علاوہ بھارت میں ان کے بزنس امپائرز موجود ہیں، پارلیمنٹ کا فلور بھی اس خاندان کے لیے ہر وقت حاضر رکھا جاتا ہے، میاں شہباز شریف اور میاں حمزہ شہباز اپنا مقدمہ پارلیمنٹ کے فلور پر پیش کرتے ہیں خصوصی طور پر پارلیمنٹ میں ان کو لانے کی غرض سے پروڈکشن آرڈر جاری کروائے جاتے ہیں، یہ پاکستان کے قانون کے خاص لاڈلے ہیں، قانون پاکستان ان کے آگے بے بس ہے اب گنز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہائوس آف شریف کا ذکر ہونا چاہیے کہ یہ خاندان دنیا کا واحد خاندان ہے جو پاکستان میں طویل عرصے تک حکمران رہا اور ملکی خزانہ لوٹ کر لے گیا۔ پاکستانی عدالتوں نے سزا بھی دی اور ان سے ایک پیسہ بھی واپس نہ لیا گیا، حد تو یہ کہ سزا یافتہ ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت دی گئی، حتیٰ کہ اب مفرور ہو کر بھی لندن میں غیر قانونی طور پر قیام پزیر ہیں۔ ان پر نہ تو پاکستانی قانون کا کوئی حکم چلتا ہے اور نہ ہی برطانوی قانون ان کے خلاف کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہے، جبکہ برطانوی سرزمین پر بیٹھ کر میاں نواز شریف پاکستان کے عسکری اداروں سمیت دیگر ریاستی اداروں کے خلاف جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ سب کچھ آئین پاکستان اور قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
مملکت پاکستان کا تین مرتبہ رہنے والا وزیراعظم اپنے سینے میں نجانے کتنے قومی راز رکھتا ہوگا اور وہ ان قومی رازوں کو اب بیرون ملک بیٹھ کر افشا کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔ دوسری سرزمین پاکستان میں ان کی صاحبزادی مریم نواز جو کھیل کھیل رہی ہیں وہ بھی قانون پاکستان کی گرفت سے آزاد ہیں، فوج میں رہنے کے باوجود میاں صاحب کے داماد صفدر اعوان عسکری اداروں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ یعنی یہ پورے کا پورا خاندان قومی خزانہ لوٹ کر اور قومی اداروں کو تباہ و برباد کرکے بھی وی آئی پی ٹھیرا اور دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے خفیہ جوڑ توڑ اور ڈیل کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہمارے ادارے بھی ان کے ساتھ روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں، یعنی یہ ’’انوکھے مجرم‘‘ ہیں اور ان کے ساتھ برتائو بھی وی آئی پی۔ یہ ہے بے بسی پاکستان کے فرسودہ نظام کی جو گزشتہ 40 سال سے دو پارٹی سسٹم کے تحت چلایا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب وقت آچکا ہے کہ ہمارے قومی ادارے ہوش کے ناخن لیں صرف ایک چنگاری ہے جو کسی بھی وقت بھڑک اُٹھی تو یہ ہر کسی کو اپنی زد میں لے کر بھسم کردے گی، پاکستان دشمن قوتیں نظریں جمائے بیٹھی ہیں کہ وہ کس طرح پاکستان کے اندر افراتفری اور انتشار پھیلائیں، ملک کے باہر اور ملک کے اندر ان قوتوں کے خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہیں جن میں سابقہ حکمران خاندانوں کے ملوث ہونے کے بھی شواہد ہیں جو امریکا اور برطانیہ کے علاوہ دبئی میں بیٹھ کر منصوبہ بندی کرچکے ہیں۔
پاکستان دشمن قوتوں کو ہمیشہ ہی سے پاکستان میں بدعنوان اور کرپٹ حکمران ہی پسند رہے ہیں جو ان قوتوں کی بھرپور مدد کرکے غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل میں معاون ثابت ہوتے رہے ہیں۔ اندازہ کرلیں کہ میاں نواز شریف مجرم ہونے کے باوجود برطانیہ میں عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور وہ برطانوی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود کسی بھی قانون کی زد میں نہیں ہیں اور پاکستان کے خلاف سرزمین برطانیہ کو استعمال کررہے ہیں، جبکہ برطانوی حکومت تمام حقائق سے باخبر ہے۔ یقین جانیے کہ میں نے خود ایک سفارتی تقریب میں برطانوی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا کو raymond w baker کی کتاب CAPITALISM’s ACHILLES HEEL DIRTY MONEY AND HOW TO RENEW THE FREE MARKET SYSTEM جو دنیا میں شہرئہ آفاق کتاب مانی جاتی ہے اس کا حوالہ دیا تھا کہ جس کے صفحہ نمبر 78 سے لے کر 84 تک میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے ’’مالیاتی معرکوں‘‘ کا تذکرہ موجود ہے اور ان دونوں سابقہ حکمرانوں کے اثاثے اور جائدادوں کے بارے میں وہ مکمل تفصیل موجود ہے جو برطانیہ اور دیگر ممالک کے مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ یہ تمام اثاثے اور جائدادیں پاکستان کا قومی خزانہ لوٹ کر بنائے گئے ہیں، اس کے باوجود برطانوی حکومت نے نہ صرف خاموشی اختیار کیے رکھی بلکہ میاں نواز شریف جو اب برطانیہ میں مقامی امیگریشن قوانین کے تحت غیر قانونی طور پر قیام پزیر ہیں پھر بھی سرزمین برطانیہ پر ان کو مکمل آزادی حاصل ہے کیوں کہ وہ دنیا کے ’’انوکھے مجرم‘‘ ہیں ان پر نہ تو پاکستان اور نہ ہی برطانیہ کا قانون کچھ کرسکتا ہے۔