ایک ضروری بات

514

کوئی صدی ڈیڑھ صدی سے ہماری مذہبی فکر میں کچھ نئے مباحث کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ کوئی سادہ اضافہ نہیں ہے بلکہ ان مباحث نے ایک مرکزیت حاصل کر لی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ایمان و عمل کا دارومدار ہی ان پر ہے۔ دین کیا ہے؟ حقیقت ِ دین کیا ہے؟ مقصدِ دین کیا ہے؟ یہ سوالات اس لیے نہیں پیدا ہوئے کہ دین کو سمجھنے اور اسے اپنے اندر اتارنے کے لیے کوئی زیادہ کارآمد چینل مل جائے، بلکہ جدیدیت کے اس دباؤ نے ان مسائل کو ہمارا بنیادی موضوع بنا دیا ہے جسے ہم نے آنکھیں بند کر کے قبول کر رکھا ہے۔ ایک لمبا نوآبادیاتی دور گزارنے کی وجہ سے ہمارے اندر کچھ نئے رویے اور تصورات پیدا ہو گئے۔ دکھائی دینے والا حاکم ان دیکھے حاکم پر غالب آ گیا اور دنیا نے آخرت کو اس طرح ڈھانپ لیا جیسے کسی رنگین چادر سے گھر میں موجود کوئی بدنما چیز چھپائی گئی ہو۔ ہمارے لیے دنیا حقیقی بن گئی اور آخرت کی حیثیت ایک خواب سے زیادہ نہ رہ گئی۔ ایسا خواب جو کسی کے لیے ڈراؤنا تھا اور کسی کے لیے خوشگوار۔ ڈراؤنا ہو یا خوشگوار، تھا یہ خواب ہی۔ یہیں سے مذہبی فکر میں اپنے دین کے لیے ایک معذرت خواہانہ رویہ سرایت کر گیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے دین کو دنیا چلانے والوں کے لیے قابلِ قبول بنانے کی کمزور سی کوشش کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ کوشش دین کے جوہر یعنی مطلق غلبے کو سلب کر کے کی جا رہی ہے۔ اب انسان کی بات اللہ کی بات سے مغلوب نہیں رہی بلکہ اس پر غالب آتی جا رہی ہے۔ اور ستم بالاے ستم یہ کہ انسان کی بات وہی ہو گی جسے مغرب قبول یا تعلیم کرے گا۔ جدیدیت نے چونکہ اپنے موافق اور مخالف دونوں ذہنوں پر اثر ڈالا ہے، اسی لیے مذہبی ذہن بھی مجبور ہے کہ تمام چیزوں کی درجہ بندی کرے۔ یعنی ہم تفریق اور امتیاز کے اصول پر اپنے ذہن میں موجود عقائد و تصورات وغیرہ کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھتے ہوئے ان کے مختلف گروپ بنائیں اور ان کے مراتب متعین کریں۔ پھر ان گروپوں کے درمیان تعلق اور لا تعلقی کے اصول و شرائط اور مواقع طے کریں۔ جدیدیت سے بننے والا ذہن یا اس کی مخالفت میں سرگرم دماغ، دونوں ہی مجبور ہیں کہ اپنے موضوعات بلکہ خود اپنے آپ کو سمجھنے کے لیے بھی اسی درجہ بندی سے کام لیں تا کہ کوئی ایک تصور یا نظریہ انسان کو اس کی کلیت کے ساتھ اپنی گرفت میں نہ لے سکے بلکہ اس کل میں جگہ بنا لینے والے ایک جز کی حیثیت پر قانع رہے۔ یہ تو گزرے وقتوں کی بات ہے، آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ دینی امور و حقائق کو جدیدیت کے بنائے ہوئے کل میں ایک معطل سا جز بننے کی بھی اجازت نہیں مل رہی۔ اس کا ایک اثر یہ ہوا کہ چیزوں میں بلکہ نظامِ موجودات میں کار فرما وحدت کا تصور اجنبی اور خیالی بن کر رہ گیا۔ ہمارے نزدیک موجودات ایک وحدت کے مظاہر ہیں۔ یہ وحدت کبھی ان کے اندر کارفرما ہوتی ہے اور کبھی ان سے ماورا رہ کر ان کا مجموعی نظام چلاتی ہے۔ وحدت کا حوالہ نہ ہو تو کثرت بے معنی ہے۔
جدیدیت کے زیرِ اثر ہمارے اندر یہ رجحان پیدا ہوا کہ دین کو کیٹگرائز کیا جائے، اس کی نئی تعریف وضع کی جائے اور اس کی تشکیلِ نو اور تعمیر ِ جدید کا عمل شروع کیا جائے۔ اور یہ سب کچھ ذہن ِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ پھر ان سرگرمیوں کے الگ الگ نتائج کو ایک کل میں ڈھالا جائے جو یہ بتائے گا کہ دین دراصل کیا ہے؟ آئندہ زمانوں میں ممکن ہے کہ ذہن اپنے اندر اور باہر کے حالات کو دیکھتے ہوئے دین کے ایک نئے تعبیری کل کی ضرورت محسوس کرے اور پچھلی تمام تعبیرات کو منسوخ اور متروک کر دے۔ اس وقت وہ تعبیر ِ دین درست ہو گی۔ اس سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ آج کے متجددین کے نزدیک ایمان ہو یا علم، اخلاق ہوں یا اعمال، سب اضافی (relative) ہیں۔ عقائد و احکام کو ہمیشہ اسی تناظر میں رکھا جائے گا جو بدلتا رہتا ہے بلکہ اس کا بدلتے رہنا ضروری ہے۔
اس پس منظر میں دیکھیں کہ آج ہمارے یہاں دو سوالوں کا دور دورہ ہے۔ دین کی حقیقت کیا ہے؟ اور دین کی غایت کیا ہے؟ یہ سوالات ہی بتاتے ہیں کہ دین کی کوئی تعبیر مستقل نہیں ہو سکتی، مطلق نہیں ہو سکتی۔ آج اگر ان کے جوابات دے دیے جائیں تو بھی یہ سوال آنے والے ہر دور میں سر اٹھاتے رہیں گے اور ان کی گونج رفتہ رفتہ جواب کی آواز پر غالب آتی جائے گی یہاں تک کہ ہر صاحب ِ ایمان کو اپنا جواب خود تیار کرنا ہو گا، اللہ سے اور اللہ کے رسولؐ سے اور اللہ کی کتاب سے پوچھے بغیر۔ یہ ایسا جواب ہو گا جس کا متکلم بھی یہی شخص ہو گا اور سامع بھی۔ پھر معاملہ یہیں نہیں رکے گا کہ مذہب ہر شخص کا انفرادی مسئلہ ہے، بلکہ یہ سوالات ہی تپتے صحرا میں پڑی ہوئی برف کی سلوں کی طرح پگھل کر غائب ہو جائیں گے۔
اس ہولناک صورت ِ حال سے بچاؤ کا ابھی سے سامان کر لینا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تیقن کے ساتھ یہ سمجھیں کہ ہماری دینی روایت ہے کیا؟ یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو دین داری کسے کہتے ہیں؟ دین کو مان لینے سے جو اندازِ تسلیم، اسلوب ِ تعمیل اور طریق ِ تحویل پیدا ہوتا ہے، اس کے مجموعے کا نام دین داری ہے۔ اس دین داری میں محض ذہنی پن نہیں ہوتا۔ یہ ایسا احوالی وفور ہے جو ذہن کو بھی شرابور رکھتا ہے۔ سلف کو دیکھیے کہ ان کے وہاں اہلِ ایمان کے دو ہی طبقات تھے۔ ایک وہ جو جانتے تھے اور دوسرے وہ جو پوچھتے تھے۔ جاننے اور پوچھنے کی یہ روایت جس کے تسلسل کو نفس ِ دین ہی کی طرح محفوظ رہنا چاہیے، اپنی ساخت میں ایک حال ہے، خیال نہیں۔ علم حال بن جائے اور حال عمل، بس یہی مقصود تھا اور ان کے ساتھ کچھ مستقل اور عارضی شعائر تھے جن کے درمیان فرق کو ہمیشہ محفوظ رکھا جاتا تھا۔ یہ تھی ہماری روایت جو رسول اللہؐ سے آخری صاحب ِ ایمان تک تسلسل کو اپنا مقصود بنا چکی تھی۔ آپؐ نے صحابہ کی متکلمانہ صلاحیت بڑھانے پرکوئی خاص توجہ نہیں دی بلکہ ان کی ایسی تربیت فرمائی کہ دین داری ایک جوہری حالت ِ وجود بن جائے جس سے متصادم اور مختلف احوال کو سرے سے قبول ہی نہ کیا جا سکے۔ ہمارے اسلاف کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے آپؐ کے اس فیضان کو، یعنی دین کو اپنا ظاہر وباطن بنا لینے کی روایت کو مسلسل رکھا اور اس تسلسل کو اپنی سب سے بڑی ذمے داری سمجھا۔
دین کا تاریخی تسلسل محض مفہومی نہیں ہوتا بلکہ ذوقی اور احوالی بھی ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ذرا گہرائی میں دیکھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس تسلسل میں ذوق، فہم پر غالب رہتا ہے۔ یعنی دینی احوال، دینی مفاہیم میں کوئی بنیادی تبدیلی لائے بغیر ایک تصدیق کرنے والی قوت کی حیثیت سے ان پر غالب رہتے ہیں۔ اس بات کا یہ مطلب ہوا کہ دین کا فہم اگر نفس کا تزکیہ نہیں کر رہا تو وہ صحیح ہونے کے باوجود بے سود ہی رہے گا۔
یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ حقیقت عموماً ذہن کی تخلیق ہوتی ہے جسے وہ چیزوں پر تصرف قائم کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہماری روایت میں حقیقت کا ہر ادراک وحی سے ہوتا ہے، یعنی حقیقت صرف کلامِ الٰہی سے اظہار کرکے فہم میں آتی ہے۔ یہاں حقیقت سے مراد حقیقت ِ وجود ہے جو اوجھل رہ جائے تو اللہ اور اس کی مخلوق میں تعلق کا تمام نظام نامعلوم رہے گا۔ دین اسی نظام کا نام ہے۔ لیکن آج کل دین کی حقیقت کا phrase جدیدیت کے سیاق و سباق میں ہے اور اسی میں رکھتے ہوئے اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ساری تحقیقی تگ و دو کا بس یہی نتیجہ نکلا ہے کہ تصورِ دین اور تعبیر ِ دین، نفس ِ دین پر غالب آتے جا رہے ہیں۔
ہمارے یہاں حقائق کی ذہنی صورتوں کو عقائد کہا جاتا ہے۔ مطلب، جن چیزوں تک ذہن اور حواس نہیں پہنچ سکتے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتانے سے وہ چیزیں اجمالاً ہمارے علم میں آ جائیں اور ہمارا ان غیبی امور سے تعلق گمان کا نہیں بلکہ یقین کا ہو اور ہم ان میں غلطی کا بعید ترین احتمال بھی نہ مانتے ہوں۔ یہ ہیں عقائد! عقائد کی علمی ساخت بھی اس طرح کی نہیں ہوتی جیسی کہ دیگر ذہنی امور کی ہوتی ہے۔ اس میں جاننے کا عنصر دبا ہوا ہوتا ہے جبکہ ماننے کا جوہر غالب ہوتا ہے۔
چونکہ جدیدیت میں ’ماننا‘ کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل بات ہے ’جاننا‘ اور وہ بھی تغیر اور تبدیلی کے بہاؤ میں رہتے ہوئے۔ اس دعوے کو عملاً ہم نے بھی قبول کر رکھا ہے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی نفسیات پر اس کا یہ اثر پڑا کہ ایمان کی فطری بناوٹ بھی ہم سے اوجھل ہو گئی۔ اللہ اور اللہ کے رسول کو مانا تو ہوا ہے لیکن اس ماننے کے لازمی نتائج بھی ہمارے اندر اور باہر نہیں نکل رہے۔ گویا ایمان کو بانجھ کر کے خود کو مومن کہا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں باقی باتیں کسی اور نشست میں کریں گے۔ ان شاء اللہ۔