تکبر ایک مہلک بیماری

391

تکبر کبر اور بڑائی کو کہتے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے، جس کی وجہ سے انسان خود کو بڑا سمجھنے لگتا ہے اور دوسروں کو حقیر و ذلیل۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’تکبر کرنے والا وہ ہوتا ہے جو حق کو قبول نہ کرے بلکہ اس کو پس پشت ڈال دے اور لوگوں کو حقیر جانے‘‘۔ (مسلم)
ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلا تکبر کرنے والا شیطان ہے، جس نے آدمؑ کے مقابلے میں اپنے آپ کو بالاتر سمجھا اور کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، وہ مٹی سے بنا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور وہ جنت سے نکال دیا گیا اور ہمیشہ کے لیے دوزخی ٹھہرایا گیا۔
’’جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا‘‘۔ (البقرہ :34)
اسی جرم کی پاداش میں گزشتہ قوموں کو ہلاک وبرباد کردیا گیا۔ محض اس وجہ سے کہ انھوںنے اپنے نبی اور رسول کی باتوں کو ماننے سے انکار کیا۔ غرور وتکبر سے کام لیا۔ استکبار کا ارتکاب کیا۔ جس کی وجہ سے اللہ رب العالمین نے ان کو دنیا سے نیست و نابود کردیا۔ جیسا کہ سیدنا نوحؑ نے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے کہا:
’’جب بھی میں نے ان کو بلایا، تاکہ تُو انھیں معاف کردے، انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اَڑ گئے اور سخت سرکشی کی‘‘۔ (نوح: 7)
اسی طرح دوسری قوموں پر جیسے قوم عاد اور قوم ثمود پر عذاب آیا۔ معلوم ہوا کہ تکبر ایسا مہلک مرض ہے، جو انسان کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح قرآن میں قارون کا قصہ مشہور ہے کہ اسے اللہ رب العالمین نے کس قدر مال واسباب سے نوازا تھا اور جب اس سے پوچھا گیا کہ تُو نے یہ مال واسباب کہاں سے حاصل کیے تو اس نے بڑے تکبرانہ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اس نے کہا کہ مال وجائیداد مجھے اپنے علم اور صلاحیت کے ذریعے ملی ہے، کیا اسے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کردیا جو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ مال و جائداد والی تھیں‘‘۔ (القصص :78)
اسی طرح فرعون نے سرکشی کی اور تکبر کیا تو اللہ نے اس کو بھی سخت عذاب سے دوچار کیا جس نے ’انا ربکم الاعلی‘ٰ کا نعرہ لگایا تھا۔ اِس جرم کی پاداش میں اللہ نے اس کو ہلاک کردیا اور رہتی دنیا تک اس کو عبرت کے طور پر رکھا تاکہ لوگ جانیں کہ تکبر کا انجام کیا ہوتا ہے۔ غرض کہ تکبر ایک سخت اور مہلک بیماری ہے۔ اس کی کتاب وسنت میں بڑی مذمت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’زمین میں اکڑکر نہ چلاکر، نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ اونچائی میں پہاڑ کو پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کاموں کی بڑائی تیرے رب کے نزدیک سخت ناپسند ہے‘‘۔ بنی اسرائیل :37-38)
اسی لیے لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت ساری وصیتیں کی تھیں۔ ان وصیتوں میں آپؑ نے تکبر سے بچنے کی بھی تلقین کی تھی۔
’’اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑو، انھیں حقیر سمجھ کر یا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر کا رویہ اختیار نہ کر بلکہ نرمی برت اور خوش خلقی سے پیش آ‘‘۔ (لقمان: 18)
رسول کریمؐ کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کا ذکر آگیا تو آپؐ نے اس کی سخت مذمت فرمائی اور فرمایا کہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! جب میں کپڑے دھوتا ہوں تو خوب سفید ہوجاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اسی طرح جوتے میں اچھا تسمہ اچھا لگتا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا: یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ حق کا انکار کرے اور لوگوں کو حقیر تصور کرے۔ تکبر کی مذمت بیان کرتے ہوئے نبی کریمؐ نے فرمایا:
’’کسی شخص کے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی کِبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔ (مسلم)
تکبر کرنے سے دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ رسولؐ نے فرمایا: ’’جس نے بھی تکبر سے اپنے کپڑے کو گھسیٹا (ٹخنوں سے نیچے تک لٹکا کر چلتے وقت زمین پر گھسیٹتا رہا) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے‘‘۔ (بخاری)
معلوم ہوا کہ تکبر سے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔ مغرور آدمی اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھتا ہے مگر حقیقت واضح ہوجانے کے بعد بہت جلد ذلیل ہوجاتا ہے۔ لوگ اسے دشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔ سماج میں اس کا کوئی وقار نہیں رہتا۔ اس کی آبرو ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر کوئی عزت و وقار چاہتا ہے تو اسے تواضع و خاکساری اختیار کرنا ہوگی اور تکبر سے بالکل دور رہنا ہوگا۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: ’’سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے ہیں اور مٹی میں تواضع وخاکساری ہے۔ تکبر وغرور نہیں ہے۔ لہٰذا اس کا علاج صرف اور صرف یہی ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی حقیقت کو سوچے تو وہ خود ہی سمجھ سکتا ہے کہ میں کیا تھا اور کیا ہوگیا اور کیا ہوجاؤںگا۔ غرور و تکبر ادعائے عظمت و احساس کبریائی صرف اللہ رب العالمین و قادر مطلق کے لیے زیبا ہے وہی اس کا ہر طرح مستحق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق، دست نگر اور محتاج ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:
’’کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے، جو شخص ان دونوں میں سے کوئی مجھ سے چھینے گا میں اسے جہنم میں داخل کروںگا‘‘۔ (ابوداؤد)
دعا ہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو تکبر جیسی مہلک بیماری سے بچائے۔ آمین