افکار سید ابو الا علیٰ مودودیؒ

317

صلح حدیبیہ کی شرائط
1۔ دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔
2۔ اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمدؐ کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
3۔ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا۔
4۔ محمدؐ اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھہر سکتے ہیں، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
٭…٭…٭
صلح حدیبیہ کے ثمرات
1۔ اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمدؐ اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری باہر (Outlaw ) سمجھتے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کرلیں۔
2۔ مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہوگئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہوگئی تھی۔
3۔ دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے 19 سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہوگئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضورؐ کے ساتھ 1400 آدمی آئے تھے، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضورؐ نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔
4۔ قریش کی طرف سے جنگ بند ہوجانے کے بعد آنحضرتؐ کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کرلیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں۔ یہی وہ نعمت عظمٰی ہے جس کے متعلق اللہ تعالٰی نے سورہ مائدہ کی آیت 3 میں فرمایا کہ ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘۔
5۔ قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمال(زیر) عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے وہ تمام قبیلے بھی، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہوگئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہوگیا۔
یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔ (دیباچہ، سورہ الفتح، تفہیم القرآن)