اسلاف کے واقعات

285

امام ابو نعیمؒ اپنی کتاب ’’الحلیۃ‘‘ میں ابراہیم بن سلیمان الزیات سے روایت کرتے ہیں کہ وہ امام سفیان ثوریؒ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور اپنے بیٹے کی شکایت کرنے لگی اور کہنے لگی کہ اے ابو عبد اللہ! میں اپنے بیٹے کو آپ کے پاس لاؤنگی، اسے نصیحت کرنا۔ انہوں نے مثبت جواب دیا تو وہ اپنے بیٹے کو لے کر آگئی۔ امام سفیان ثوریؒ نے اْسے پند و نصائح کیں۔ کچھ دنوں بعد وہ عورت آئی اور کہنے لگی، اللہ تعالیٰ ااپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، میرا بیٹا بہت سی باتوں میں میری اطاعت کرتا ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ آئی اور کہنے لگی: اے ابو عبد اللہ! میرا بیٹا رات کو سوتا نہیں اور دن کو روزہ رکھتا ہے اور کھانا و پینا بھی بہت کم کیا ہوا ہے۔ سفیان ثوریؒ نے پوچھا: یہ کس لیے؟ اس نے جواب دیا طلب حدیث کے لیے۔ وہ فرمانے لگے: پھر اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھیں۔
امام سفیان ثوریؒ عظیم علما و محدثین میں سے تھے اور بہت زیادہ نیکی کا حکم کرنے والے تھے اور دعوت و تبلیغ میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرتے تھے، اس کے رفقا میں سے ایک کا کہنا ہے کہ میں امام ثوریل کے ساتھ باہر نکلتا تو آتے جاتے ان کی زبان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے نہ رُکتی تھی۔ (حلیۃ الاولیاء)
امام ثوریؒ اس طرح مسلمانوں کے حالات کی خبر گیری کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ یحیٰ بن یمان فرماتے ہیں:
سفیان ثوریؒ اور ابراہیم بن ادھمؒ رات کو مسلمانوں کے حالات و معاملات کے بارے میں گفتگو شروع کرتے تو صبح ہوجاتی۔
سفیان ثوریؒ کے سامنے پریشانی کی شکایت کرنے والی عورت کے واقعے میں ہمیں چند فوائد حاصل ہوتے ہیں:
1۔ عورت نے اپنے بیٹے کی اصلاح کے لیے بہترین طریقہ اختیار کیا کہ اپنی پریشانی کو عظیم محدث کے سامنے پیش کیا۔
2۔عورت نے اپنے بیٹے کی اصلاح کے لیے وعظ اور دعا کا مطالبہ کیا۔
3۔امام ثوریؒ نے اعلیٰ اخلاق اور تواضع کو اختیار کیا کہ عورت کی بات توجہ سے سنی اور اس کے مطالبے پر لڑکے کو وعظ کے لیے وقت دیا۔
4۔امام ثوریؒ کے وعظ کا فوراً اثر ظاہر ہوا کہ لڑکے کی حالت تبدیل ہوگئی اور وہ انتہا درجے کے عابد و زاہد اور حصولِ علم کے شائق ہوگئے۔
5۔امام ثوریؒ کی خیر خواہی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے عورت دوبارہ خدمت میں حاضر ہوئی۔
6۔لڑکے کا بہت زیادہ عبادت اور حصولِ علم میں شدت اٹھانے کا مسئلہ دریافت کیا کہ کہیں یہ غلو میں داخل نہ ہوجائے۔