امریکا اسرائیل اور بھارت افغانستان میں کبھی خانہ جنگی ختم نہیں ہونے دینگے

181

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) افغانستان میں اس وقت بھی خانہ جنگی ہو رہی ہے‘ امریکی انخلا کے بعد خانہ جنگی میں مزید تیزی اور شدت پیدا ہوگی‘ طالبان اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو رہا‘ طالبان اس وقت افغانستان کے بیشتر حصے پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں‘ اس وقت افغانستان میں طالبان سب سے زیادہ منظم جماعت ہے‘ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ سیکورٹی فورسز کے اہلکاررضا کارانہ ہتھیار ڈال رہے ہیں ‘ہم بات چیت کے ذریعے معاملا ت کو آگے لے کر چلیں گے‘ طالبان کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ کرلیا تو ان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا‘ بیرونی امداد بھی بند ہو جائے گی، افغانستان میں امریکا، بھارت اور اسرائیل نے پراکسی کی صورت میں اپنا خفیہ نیٹ ورک تشکیل دے رکھا ہے‘ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ان گروہوں کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جائے گا‘ اس کی زد میں ہمسایہ ممالک بھی آئیں گے تاہم افغان عوام کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا‘ آئندہ الیکشن میں غیر ملکی مداخلت نہ ہو تو طالبان افغانستان میں واضح اکثریت حاصل کر لیں گے‘ حکومت بنائیں گے اور ماضی کی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، افغان امور کے ماہر اور معروف تجزیہ کار حیم اللہ یوسفزئی اور معروف دفاعی تجزیہ کار کرنل ( ر ) اسد محمود نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا امریکا اور طالبان میں الفاظ کی جنگ اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ افغانستان خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے؟‘‘ امیر العظیم نے کہا کہ افغانستان مستقبل قریب میں خانہ جنگی کی جانب بڑھ نہیں رہا بلکہ افغانستان میں تو اس وقت بھی خانہ جنگی ہو رہی ہے‘ ا مریکی انخلا کے بعد اس خانہ جنگی میں مزید تیزی اور شدت پیدا ہوگی‘ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مذاکرات بھی طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں‘ فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے‘ خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہمسایہ ممالک بھی آئیں گے‘ دراصل امریکا افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا‘ اس خفت کو مٹانے کے لیے اس کی کوشش ہوگی کہ افغانستان میں کسی قسم کا سیاسی، معاشی اور اقتصادی ٹھیراؤ پیدا نہ ہوسکے اور وہاں کے عوام دست وگریباں ہی رہیں جس کے لیے امریکا نئی اور مکروہ سازشیں کرتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کے34 میں سے26 صوبوں میں اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے‘ امریکی سازشوں سے نکلنے کے لیے حکومت پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ روس، چین اور ایران کو بھی اعتماد میں لے‘ اگر یہ ممالک مل کر امریکا کی سازشوں کا توڑ کرلیں اور امریکا کو مجبور کریں کہ وہ افغانستان میں مستقبل کی حکومت میں عمل دخل نہ کرے اپنے اثرات بڑھانے کے بجائے سارے معاملات افغان عوام پر چھوڑ دے تو پھر شاید افغانستان کی خانہ جنگی کا خاتمہ ہوسکے‘ افغان عوام کو ہمیں بھی آگاہی فراہم کرنی پڑے گی نہ کہ ان پر ہتھوڑا لے کر تعلیم و تربیت اور جمہوریت سکھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال میں طالبان اور حکومت کے درمیان کوئی امن معاہد ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہا ہے‘ حالیہ دور میں افغان حکومت بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے جبکہ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ حکومتی اہلکاروں نے بہت سے مقامات پر رضاکارانہ طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں‘ طالبان کا افغانستان کے بیشتر علاقوں میں مکمل کنٹرول ہے‘ اس صورت حال میں افغان حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے‘ طالبان نے اپنا مؤقف دیا ہے کہ عوام بغیر کسی دباؤ کے ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں‘ ہم کابل پر حملے کے بجائے بات چیت کرتے رہیں گے‘ طالبان کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ وہ اگر کابل پر طاقت کے زور پر قبضہ کرلیں گے تو ان کی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جائے گا‘ اس طرح طالبان کی صلاحیت کو بھی نقصان پہنچے گا اور افغانستان کی بیرونی امداد بھی بند ہوجائے گی ۔ انہوں نے بتایا کہ طالبان کا کہنا ہے کہ حکومت میں ہماری بات کو تسلیم کیا جائے‘ لگتا ہے کہ بلآخر طالبان حکومت کا حصہ بن جائیں گے‘ حکومت کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کے علاوہ کوئی منظم سیاسی جماعت نہیں ہے‘ طالبان کے پاس فوجی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں عوامی حمایت بھی موجود ہے‘ ایشیا فاؤنڈیشن کے سروے کے مطابق دیہی اور شہری علاقوں میں طالبان کے حمایتی موجود ہیں تاہم غیر ملکیوں کی موجودگی کی وجہ سے وہ لوگ کھل کر سا منے نہیں آتے‘ گزشتہ الیکشن میں غیر ملکی فوجیوں کی مداخلت اور پیسے کا استعمال کیا گیا‘ اگر آئندہ الیکشن میں غیر ملکی مداخلت نہ ہو تو طالبان افغانستان میں واضح اکثریت حاصل کر لیں گے‘ طالبان کو ووٹ ملنے کی صورت میں ان کی ذمہ داری مزید بڑھ جائے گی ۔ اسد محمود نے کہا کہ امریکا نے افغان جنگ کا خود آغاز کیا تھا‘افغانستان میں 20 سال سے زاید عرصے کے دوران اتحادی فوجیں ہزیمت اٹھا نے کے بعد وہاں سے نکل رہی ہیں‘ افغان قوم نے بے سرو سامانی کے باوجود دنیا کی ایک نہیں بلکہ 2 سپر پاور زکو شکست سے دو چار کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ افغان قوم کو نہ تو کوئی فتح کر سکتا ہے اور نہ ہی ان پر حکمرانی کر سکتا ہے‘ امریکا افغانستان سے چائنا ، روس پر نظر رکھنا چاہتا تھا جبکہ پاکستان اور ایران کو اپنے انگھوٹھے کے نیچے رکھنا چاہتا تھا‘ امریکا کا پروگرام بری طرح مجروح ہوا ہے‘ جس کی وجہ سے افغانستان میں امریکا ، بھارت اور اسرائیل نے اس عرصے میں پراکسی کی صورت اپنا ایک خفیہ نیٹ ورک تشکیل دیا ہے جس کے نتائج کے طور پر پاکستان میں ہر طر ف دہشت گردی اور بدامنی کی کیفیت موجود ہے‘ امریکا کی افغانستان میں گرفت کمزور پڑ چکی ہے وہ اب وہاں پر موجود مختلف گروہوں سے کام لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ڈیڑھ کروڑ ووٹرز موجود ہیں‘ امریکی اور اتحادی فوجیوںکی موجودگی کے باوجود کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت نے صرف 7 لاکھ ووٹ حاصل کیے ہیں‘ اتنے کم ووٹ حاصل کر کے یہ حکومت کی نمائندہ حکومت نہیں ہوسکتی‘ طالبان کا اکیلے ہی حکومت بنانا ناممکن بات ہے‘ نہ ہی عالمی دنیا اس حکومت کو تسلیم کرے گی‘ اس صورت حال میں افغانستان کے تمام دھڑوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہوشمندی سے کام لیتے ہوئے ایک قومی حکومت تشکیل دیں جس میں تمام دھڑوں کی نمائندگی ہو ایسا نہ کرنے کی صورت میں بھارت، اسرائیل اور امریکا کے پیدا کردہ دہشت گردگروپوں کو کھل کر اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل جائے گا اوراس صورت حال میں افغانستان ایک بار پھر بہت بڑے خون خرابے میں پھنس سکتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے پڑوسی ملک میں خانہ جنگی ہو اور پاکستان محفوظ رہے۔