غِنٰی کا راز… قناعت

471

جن صفات سے ایک انسان کی زندگی خوش گوار اور پر سکون بنتی ہے، ان میں ایک قناعت کی صفت ہے اور قناعت کے معنی ہیں کہ جو نعمت انسان کے نصیب اور حصے میں آئے اس پر وہ راضی ہے۔ یعنی انسانی ضروریات، جائز ذرائع سے، جتنی جس شخص کو مل رہی ہیں ان پر راضی رہے اور اس سے زیادہ حرص اور لالچ نہ کرے۔
جس شخص کو قناعت کی یہ صفت نصیب ہوئی اسے بڑی نعمت نصیب ہو گئی، جس سے وہ اپنی زندگی میں سکون اور راحت محسوس کرے گا اور ان تمام مشکلات اور پریشانیوں سے بچ جائے گا جو حرص اور لالچ کے نتیجے میں انسان کو لاحق ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ زیادہ مال ومتاع کی لالچ میں یا تو ناجائز ذرائع استعمال کرے گا، جیسے چوری، ڈاکا اور رشوت وغیرہ یا جائز ذرائع میں طاقت سے زیادہ جتن کرے گا اور جسمانی نقصان اٹھائے گا۔
قناعت ایک ایسی صفت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی بھی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور انسان بھی ایسے شخص سے محبت کرتے ہیں۔ ایک شخص نے نبی کریمؐ سے سوال کیا کہ آپ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے مجھ سے اللہ بھی راضی ہو اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں، آپؐ نے فرمایا: ’’تُو دنیا سے بے رغبت ہو جا، اللہ تجھ سے محبت کریں گے اور انسانوں سے بے غرض ہو جا، تو لوگ تجھ سے محبت کریں گے‘‘۔ (ابن ماجہ)
ظاہر ہے کہ جب انسان دنیا کی لالچ میں نہیں پڑے گا تو بہت سے گناہوں سے بچ جائے گا، جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں اور جب دوسروں سے کوئی غرض اور لالچ نہ ہوگی تو لوگ بھی اس سے محبت کریں گے، جب کہ خود غرض اور لالچی انسان کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔
قناعت والی زندگی کے بارے میں نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’وہ شخص کامیاب ہے جسے اسلام کی نعمت نصیب ہوئی اور اسے ضرورت کے مطابق روزی مل رہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس پر قناعت نصیب کی ہے‘‘۔ (مسلم)
اور دوسری روایت میں فرمایا: خوشخبری ہو ایسے شخص کو جسے اسلام کی نعمت نصیب ہوئی اور اس کی روزی بقدر ضرورت تھی اور وہ اس پر قناعت کرنے والا تھا۔
حقیقت میں غنا اور مال داری مال کی کثرت کا نام نہیں، بلکہ مال داری تو دل کے غنا کا نام ہے، نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے: ’’مال کی کثرت کا نام غنا نہیں، غنا تو دل کے غنا کا نام ہے‘‘۔ (متفق علیہ)
قناعت کی صفت حاصل کرنے کا ایک طریقہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ انسان اپنے سے اوپر والے کو دیکھنے کے بجائے اپنے سے نیچے والے کو دیکھے، جو اس سے مال ومتاع میں کم ہو، اس سے اللہ کی نعمت کی قدر ہو گی اور بے جا لالچ اور حرص سے بچارہے گا، نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’جو تم سے مال واسباب میں کم ہو اس کی طرف دیکھو اور جو تم سے مال واسباب میں زیادہ ہو اس کی طرف مت دیکھو، اس طرح کرنے سے تم اس نعمت کو حقیر نہ جانو گے جو اللہ نے تم پر کی ہے‘‘۔ (مسلم)
ایک دوسری روایت میں الفاظ اس طرح آئے ہیں: ’’جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور جسم میں اس سے افضل ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے شخص کی طرف نگاہ کرے جو ان امور میں اس سے کم ہو‘‘۔ (بخاری)
ظاہر ہے کہ اس قاعدے پر عمل کرنے سے اللہ کی نعمت جو اسے حاصل ہے اس کی قدر ہوگی اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرے گا اور شکر کا نتیجہ نعمت میں اضافہ اور ترقی کی شکل میں ظاہر ہوگا، ارشاد باری ہے: ’’اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
اور اس کے برعکس اگر اوپر والے کو دیکھے گا تو وہ نعمت جو اسے حاصل ہے وہ ہیچ معلوم ہوگی اور اسے حقیر سمجھے گا اور ناشکری کا مرتکب ہوگا اور ناشکری کی صورت میں اس کے چھن جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے: ’’اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے‘‘۔
اس کے علاوہ اوپر والے کو دیکھنے سے اس جیسا بننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔
ایک بزرگ نے فرمایا: جب تک میرا تعلق مال داروں سے رہا میں ہمیشہ پریشان رہتا تھا، کیوں کہ ان کے بڑے وسیع محلات دیکھتا، عمدہ قسم کے گھوڑے اور سواریاں دیکھتا اور اپنے پاس ان کا آنا جانا۔ پھر جب میں نے مال داروں کے بجائے اپنا تعلق غریبوں سے جوڑا تو مجھے سکون اور اطمینان نصیب ہوا۔
نیز قناعت کی صفت حاصل کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی کی حقیقت کو پہچانے، نبیؐ نے ایک صحابی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’دنیا میں ایسے رہو جیسے تم ایک اجنبی یا مسافر راہ گزر ہو‘‘۔ (بخاری)
اس کے برعکس جب انسان لمبی لمبی امیدیں باندھتا ہے تو اس میں لالچ اور حرص بڑھ جاتی ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہو کر اپنے مالک کو بھی بھول جاتا ہے اور یہ غفلت کا پردہ تب اٹھتا ہے جب موت آجاتی ہے۔ تب پتا چلتا ہے کہ سخت غفلت اور بھول میں تھے، محض چند روز کی چہل پہل تھی، اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے، یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں‘‘۔ (التکاثر)
نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ کسب حلال کے لیے جائز اسباب اختیار کرنا اور اپنی وسعت کے مطابق ان میں محنت کرنا قناعت کے خلاف نہیں۔
نیز یہ کہ قناعت کا تعلق نیک اعمال، نیک اخلاق اور علمی کمالات سے نہیں ہے، بلکہ ان اعمال اور کمالات میں زیادہ ہونے کا شوق مطلوب ہے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنا قابل تعریف ہے ارشاد باری ہے: ’’نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو‘‘۔ اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ ان کمالات میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو، تاکہ تم میں اس کمال کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔
بہرحال پرسکون اور خوشگوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان قناعت کی صفت کو اپنائے، ضروریات زندگی پر اکتفا کرے اور جمالیات اور کمالیات پر زیادہ زور نہ دے اور بے جا حرص اور لالچ سے بچتا رہے۔