برکت کا مفہوم

515

بہت سے کج فہم لوگوں کو برکت کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ بعض لوگ مذاق بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس دس ہزار روپے ہیں، کیا نیک کام کرنے سے وہ بارہ ہزار بن جائیں گے۔ یاد رہے کہ برکت سے مراد روپے کی مقدار میں اضافہ نہیں ہے، بلکہ روپے کا صحیح جگہ استعمال ہونا، کم پیسوں میں کام کا بن جانا، تھوڑی آمدنی میں ضرورت پوری ہوجانا یہ سب مال کی برکت ہے، جو اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کی وجہ سے عطا کرتا ہے۔ بہت سے دوست و احباب کی آمدنی ایک لاکھ سے زائد ہر مہینے ہوتی ہے، مگر کچھ پیسے بیماریوں اور اسپتالوں میں، کچھ ناجائز مقدمات کی پیروی میں، کچھ عیش و عشرت میں اور کچھ گناہ کے کاموں میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی ان کے سارے پیسے ختم ہوجاتے ہیں اور قرض کی نوبت آجاتی ہے۔ سماج میں کوئی عزت ہے اور نہ قلبی و ذہنی سکون انھیں حاصل ہے۔ یہ اللہ سے بغاوت کا نتیجہ ہے، جس کے سبب مال سے برکت اٹھالی گئی۔ اس کے برعکس مدارس اور دینی کاموں سے وابستہ افراد کی زندگیوں کا مطالعہ کیا جائے تو ہر ایک کو حیرت ہوگی کہ معمولی تنخواہوں میں اپنے پورے گھر والوں کے ساتھ سب کے حقوق ادا کرتے ہوئے وہ باعزت اور باوقار زندگی گزارتے ہیں، جس پر بڑی تنخواہ پانے والوں کو رشک آنے لگتا ہے۔
اللہ تعالیٰ غیب سے اسلام کے پیروکاروں کے لیے ایسی راہیں کھول دیتا ہے، جن کے ذریعے کم پیسوں میں وہ کام ہوجاتا ہے جس کے لیے خطیر رقم کی ضرورت پڑتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنید بغدادیؒ کا ایک مرید بہت پریشان ہوکر کہنے لگا: حضرت! حج کا ارادہ ہے؛ لیکن کچھ بھی مال میرے پاس موجود نہیں۔ حضرت نے ایک دینار دیتے ہوئے فرمایا: جاؤ حج کرلو۔ حج کے لیے ایک دینار معمولی سرمایہ تھا۔ بظاہر حج اس سے مشکل تھا، مگر حضرت کا حکم ہوا، وہ ایک دینار لے کر چل پڑا۔ ابھی بستی سے باہر ہی گیا تھا کہ ایک قافلہ آتا ہوا دیکھا۔ اس نے قافلے والوں کو سلام کیا اور پوچھا: بھئی! آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ حج کے لیے جارہے ہیں۔ اس نے کہا میں بھی حج پر جا رہا ہوں، مگر میں تو پیدل چلوں گا، قافلے والے کہنے لگے کہ ایک آدمی ہم میں سے بیمار ہوگیا، جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ گیا ہے، اس کا اونٹ خالی ہے، آپ اس پر سوار ہوجائیے۔ یہ شخص اونٹ پر بیٹھ گیا۔ اب جہاں قافلے والے رکتے اور کھانا پکاتے اس کو مہمان سمجھ کر ساتھ کھلاتے۔ پورا حج کا سفر اس نے اسی طرح طے کیا۔ آخر کار ان کے ساتھ حج کرکے واپس آیا اور بستی کے کنارے پر انھوں نے اسے اتارا۔ اس کو کہیں بھی پیسے خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: حضرت! عجیب حج کیا، میں تو مہمان ہی بن کر پھرتا رہا اور اب یہاں پہنچ گیا ہوں۔ حضرت نے پوچھا کہ تمھارا کچھ خرچ ہوا؟ عرض کیا کچھ بھی نہیں۔ فرمانے لگے: میرا دینار واپس کردو، اللہ والوں کا ایک دینار بھی خرچ نہیں ہوتا۔ (پریشانیوں کا حل، از: مولانا پیر ذو الفقار احمد نقشبندی، ص: 48)
یہ مال کی برکت ہی تو تھی کہ غیب سے ایسے اسباب پیدا کیے گیے کہ باعزت طور پر اس مرید کا حج بھی ہوگیا اور ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ جب کہ ایک دینار کا سرمایہ حج کے لیے انتہائی ناکافی تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جنید بغدادیؒ کی بزرگی اور اس مرید کے اخلاص و محبت کی وجہ سے اسی ایک دینار کو مکمل سفر کا سبب بنایا اور اس میں کچھ کمی بھی نہ آئی۔ انسان میں کچھ دینی فہم اور صحیح ادراک کی صلاحیت ہو تو روز مرہ زندگی میں بھی مالی برکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کے گناہ اور نافرمانیوں کی وجہ سے مال سے برکت ختم کردی جاتی ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جیسے: مال کا چوری ہونا، قرض لینے والے کا مال واپس نہ کرنا، ادھار لینے والے کا وقت پر پیسے نہ دینا، طاقت ور افراد کا زمین و جائداد پر قبضہ کرلینا وغیرہ۔ اہل علم نے مال کی بے برکتی کی ایک صورت یہ بھی لکھی ہے کہ جو سامان جس کام کے لیے خریدا جائے، اس میں وہ تا دیر استعمال نہ کیا جاسکے؛ بلکہ بار بار خراب ہوتا رہے۔ اگر ایک شخص نے کوئی گاڑی خریدی اور خلاف توقع باربار اسے میکینک کے پاس جانے کی ضرورت پیش آئی تو بلا شبہ یہ بے برکتی ہے، اس میں وقت اور پیسہ دونوں کی بربادی ہے اور اگر وہ گاڑی چلتی رہے تو اسی کا نام برکت ہے۔
ایک بیٹے نے اپنے بزرگ والد محترم سے کہا کہ اباجی! برکت کا لفظ تو بہت سنتے رہتے ہیں، مگر میری سمجھ میں نہیں آیا۔ آپ اس سلسلے میں کچھ بتائیے، فرمانے لگے: بیٹا ادھر آؤ، وہ اسے لے گئے اور اپنے گھر کا ہینڈ پمپ دکھاتے ہوے کہا کہ یہ برکت ہے، بیٹا ہینڈ پمپ دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور پوچھا: ابا جی! یہ برکت کیسے ہے؟ اس کے بزرگ والد نے فرمایا کہ بیٹا! تمھاری عمر بیس سال ہے اور تمھاری پیدائش سے پہلے ہی میں نے یہ ہینڈ پمپ لگوایا تھا، آج تک اس میں خرابی نہیں آئی، اس کو ٹھیک کرانے میں میرا مال لگا نہ وقت لگا اور نہ کوئی پریشانی ہوئی، اسی کو برکت کہتے ہیں۔