توبہ اور شیطان

391

شیطان کبھی نہیں یہ چاہتا کہ انسان اللہ تعالی کی اطاعت کرے اور نیک راستے پر چلے۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اگر کوئی توبہ کر کے سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اسے روکے۔ اس کے لیے وہ مختلف حیلوں، بہانوں اور وسوسوںسے کام لیتا ہے۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں، لیکن کیا اس کی کوئی ضمانت ہے کہ اگر میں توبہ کروں تو اللہ تعالی مجھے معاف فرما دیں گے؟ اگر مجھے یقینی طور پر علم ہو جائے کہ اللہ تعالی مجھے معاف فرما دیں گے تو میں توبہ کر لوں یا یہ کہ مجھ سے اتنے زیادہ گناہ ہوگئے ہیں اور اس کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو تو کیا اللہ تعالی کے لیے مجھے معاف کر دینا ممکن ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تمام باتیں ایک مومن کو زیب نہیں دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالی کی قدرت، اس کی رحمت کی کشادگی پر یقین نہیں ہے۔ جبکہ قرآن کہتا ہے:
’’اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے‘‘۔ (الاعراف: 156)
اسی طرح وہ اس بات پر بھی یقین نہیں رکھتا کہ اللہ تعالی اس کے تمام گناہ بخش سکتا ہے اور معاف کر دینے کے بعد بھی اس کے گناہوں کو مٹانے کی قدرت نہیں رکھتا (نعوذ باللہ)۔ جب کہ اللہ تعالی حدیثِ قدسی میں فرماتے ہیں:
’’اے ابن آدم! تو جب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے توقع رکھے تو تیرے جتنے بھی گناہ ہوں گے میں بخش دوں گا اور مجھے اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں زمین بھر بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا‘‘۔ (ترمذی)
اور رہی بات گناہوں کو مٹانے کے لیے اللہ تعالی کی قدرت کی تو ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:
’’جسے علم ہوگیا کہ میں گناہ معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہوں تو میں اس کے گناہ بخش دوں گا، بشرط کہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ بات آخرت میں ہوگی جب بندہ اپنے پروردگار سے ملے گا‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین)
اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھی مجھے اس سے روکتے ہیں اور وہ میرے ماضی کے گناہوں اور رازوں کو عام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
درحقیقت یہ لوگ انسان کو راہِ راست پر دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اس لیے وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ ایسے موقع پر اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہیے اور ’’ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے جو بہترین کار ساز ہے‘‘۔ (آلِ عمران:173) پڑھنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالی ہی مومنوں کا مددگار ہے اور انہیں کبھی وہ مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے‘‘۔ (ابراہیم: 27)
پھر بھی اگر زیادہ مسئلہ ہو جائے اور اس بات کا ڈر ہو کہ پرانی باتوں اور گناہوں سے معاملہ بگڑ سکتا ہے تو قریبی لوگوں کو اعتماد میں لے کر بتا دینا چاہیے کہ مجھ پر شیطان حاوی تھا اور غلطیاں ہو گئیں تھیں، لیکن میں نے اب توبہ کر لی ہے۔ ویسے بھی حقیقی رسوائی وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے ہوگی اور اس وقت سیدنا آدمؑ سے لے کر آخری انسان تک موجود ہوں گے۔ اس لیے اس دنیا ہی میں ہم سب کو اپنے گناہوں سے توبہ کر لینی چاہیے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان پھر نیکیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اس طرح سے کہ بسا اوقات شیطان بھی افسوس کرنے لگتا ہے کہ کاش میں نے اس کو اس گناہ میں مبتلا نہ کیا ہوتا۔