خطے کی صورت حال اور پاکستان

917

افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہونے جارہا ہے۔ اب پاکستان پر امریکی دبائو بھی بڑھتا چلا جارہا ہے کہ سرزمین پاکستان پر ایک بار پھر امریکی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی جائے گو کہ ترجمان وزارت خارجہ نے اس ضمن میں حکومت پاکستان کا موقف کھل کر بتادیا ہے کہ اب پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ امریکا کے عسکری اور سفارتی ذرائع نے حکومت پاکستان سے رابطہ بدستور قائم کر رکھا ہے کہ پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے امریکی افواج کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی جائے کہ جب امریکی افواج افغانستان سے باہر نکلتی ہیں تا کہ وہ اپنا جنگی سازوسامان بحفاظت پاکستان کے راستے لے جاسکیں۔ ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کا شمسی بیس امریکی فوج کو دے رکھا تھا اس کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں حسین حقانی کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں امریکی بلیک واٹر اور سی آئی اے کے دیگر اہلکاروں کو پاکستان کے ویزے جاری کروائے ان دنوں میں اسلام آباد میں امریکی سفارتی مشن ایشیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک تھا۔ اس کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کو بھی افغانستان میں مشترکہ نیٹ ورک چلانے کی بھرپور سہولت فراہم کی گئی۔ ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف چین کے خلاف خفیہ طور پر جاسوسی کا جال بچھایا گیا، ان ہی کارروائیوں کے نتیجے میں سرزمین پاکستان پر دہشت گردی بھی کروائی گئی۔ حتیٰ کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس پورے کھیل میں بھارت اور اسرائیل مل کر کارروائی کرنے والے تھے۔ ان حملوں کی بروقت آگاہی اور اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر اس منصوبے کو بے نقاب کرکے اس حملے کو ناکام بنادیا اور پھر ساتھ ہی بھارت کو دوٹوک الفاظ میں یہ بتا بھی دیا گیا کہ اگر پاکستان کے خلاف کسی بھی قوت نے میلی نظر سے دیکھا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سی پیک کی سخت مخالف ہیں کیوں کہ پاکستان اب خطے میں مرکزی حیثیت حاصل کرچکا ہے اور اب اس کی اہمیت ہر لحاظ سے بڑھ گئی ہے۔ امریکا نے ماضی میں اور ابھی بھی بھارت کو خطے میں بالادستی دلوانے کی سفارتی کوششیں بدستور جاری رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان کے اندر غیر یقینی کی صورت حال پیدا کرنے میں بھارت کی دلچسپی عیاں ہے اور وہ ہر طرح سے پاکستان کے اندر ہر وہ حربہ استعمال کرتا ہے جس سے پاکستان میں سیاسی طور پر محاذ آرائی قائم رہے اور پھر معاشی طور پر پاکستان کو بحرانی صورت حال میں مبتلا رکھا جائے۔ اس سلسلے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہمیشہ کی طرح اپنے مشن پر کام کررہی ہے۔
پاکستان میں صحافت کے حوالے سے جو پروپیگنڈا بھارتی میڈیا کررہا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے پاکستان دشمنی میں اب مغربی میڈیا بھی شریک ہوچکا ہے جو پاکستان میں آزادی صحافت کے بارے میں خبریں دے کر یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف پاکستان کے عسکری ادارے ملوث ہیں۔ جس کو مغربی میڈیا ریاستی جبر کا نام دے کر پاکستان کو بدنام کررہا ہے۔ یہ ایک منظم سازش ہے جس کا جال اب بُنا جارہا ہے۔ اس میں بھارت کا کردار کلیدی ہے۔ اس پاکستان دشمن سازش میں پاکستان کے چند صحافی بھی برابر کے شریک ہیں۔ ایک طرف تو وہ حکومت کے مخالف ہیں تو دوسری جانب وہ پاکستان کے عسکری اداروں کو بھی کمزور کرنے کی مذموم سازش کا حصہ ہیں۔ یہ وہ حربے ہیں جو معاشرے میں بے چینی اور افراتفری پھیلانے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان دشمن قوتوں نے ہر حربہ استعمال کرکے دیکھ لیا مگر ان کا یہ حربہ ناکام ہوا کیوں کہ پاکستان پوری مسلم امہ میں واحد ایٹمی قوت ہے اور پھر اب پاکستان چین کے ساتھ مل کر جس معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے اور پاکستان کے علاقے گوادر میں سی پیک منصوبے کے تحت جو تجارتی راہداری کی ابتدا ہوئی ہے اس سے خطے میں پاکستان کو منفرد حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سفارتی کامیابیوں کا حامل ملک تصور کیا جانے لگا ہے جس کی بڑی واضح مثال حالیہ دنوں میں ترکی، سعودی عرب اور دیگر مسلم ریاستوں کی مشترکہ سفارت کاری ہے جو اقوام متحدہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس میں پاکستان کا کردار بڑا واضح ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی سفارت کاری اقوام متحدہ میں اعلیٰ حیثیت سے ہمکنار ہوئی ہے۔ پاکستان کا موقف تسلیم کیا جانے لگا ہے جو بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
عراق، لیبیا، یمن اور مصر میں جو کچھ ہوا اور یہ سب کچھ کن قوتوں نے کروایا اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ ان ریاستوں کو خانہ جنگی میں دھکیل کر مغربی قوتوں نے اپنے مقاصد حاصل کیے، آج شام میں جو کچھ ہورہا ہے اور پھر فلسطین اور کشمیر میں جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں یہ مسلم امہ کے لیے لمحہ فکر ہیں۔ پاکستان نے جس طریقے سے دہشت گردی کے ناسور پر قابو پایا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جس طرح دہشت گردوں اور شدت پسند عناصر کا خاتمہ کیا گیا ہے اس میں افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ مہارت ہی ہے جو پاکستان کو محفوظ بنائے ہوئے ہیں۔ برطانوی اور امریکی افواج کے اعلیٰ افسران سے لندن میں بعض سفارتی تقریبات میں گفتگو کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ بڑے واضح الفاظ میں افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں کہ اس فوج نے خطے میں دہشت گردی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ لیکن دوسری جانب پاکستان میں چند مخصوص صحافیوں نے جس طریقے سے ISI کے خلاف عوامی سطح پر اپنی مہم شروع کررکھی ہے یہ ریاست پاکستان کے حساس ادارے کے خلاف گہری سازش ہے۔ ذرا تھوڑا ماضی میں دیکھیں کہ جب سرزمین پاکستان پر امریکی افواج نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا اور اس فوجی کارروائی کو پاکستان کی قومی سلامتی کی کھلم کھلا کارروائی قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی لیکن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس فوجی آپریشن پر امریکی صدر بارک اوباما کو مبارکباد دی تھی۔ بارک حسین اوباما اپنی کتاب ’’A PROMISED LAND‘‘ کے صفحہ نمبر 696 پر اس آپریشن کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ آپریشن کرنے کی اجازت دی اور پھر اس آپریشن کے بعد صدر آصف علی زرداری کو فون کیا تو میرا خیال تھا کہ میری یہ فون کال انتہائی مشکل ہوگی اور مجھے تلخ الفاظ سننے کو ملیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ آصف علی زرداری نے ہمارے اس آپریشن پر ہمیں مبارکباد دی اور امریکی افواج کی تعریف کی۔ یعنی اندازہ کرلیں کہ مملکت پاکستان کے صدر اپنے ملک کی سالمیت کے خلاف اٹھائے گئے اقدام پر امریکی صدر کو مبارکباد بھی دیتے ہیں اور اس اقدام پر ان کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف بطور وزیراعظم پاکستان امریکی صدر بل کلنٹن سے پاکستان میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کی غرض سے امریکی حمایت مانگتے رہے اور ساتھ ہی وزیراعظم ہائوس میں امریکی فوجی کمانڈوں کی کمانڈ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے جو فوجی بغاوت کی صورت میں اُن کی حفاظت کرسکیں اور فوجی مداخلت کو ناکام بنانے میں کارگر ثابت ہوسکیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو اب تاریخ کا حصہ ہیں اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں قومی یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور قومی اداروں پر بے جا کیچڑ نہ اچھالا جائے اور ساتھ ہی ابن الوقت اور بدعنوان حکمرانوں کی خاندانی اجارہ داریوں سے نجات حاصل کی جائے۔