اصولِ معاشرت

984

سیدنا عیاضؓ راوی ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی کے ذریعے سے یہ بتایا ہے کہ سب آپس میں تواضع سے پیش آؤ، کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور سرکشی نہ کرے۔ (مسلم)
جناب ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: زکوۃ مال میں کوئی کمی اور نقصان نہیں کرتی اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے کی عزت بڑھاتا ہے اور جو کوئی تواضع کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلند کرد یتا ہے، اس کے درجات بڑھاتا ہے۔ (مسلم)
جناب انس بن مالکؓ کچھ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے بچوں کو سلام کیا اور یہ فرمایا کہ رسول اللہؐ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (متفق علیہ)
جناب انس بن مالکؓ راوی ہیں کہ مدینے کی کوئی بچی آتی اور رسول اللہؐ کا ہاتھ پکڑ کر جدھر جی چاہتا لے جاتی۔ (بخاری)
یہ احادیث ِ مبارکہ ایک مقصود کو بیان کرتی ہیں، یعنی ایک ایسی ضرورت کی طرف ہمیں یکسو کرتی ہیں کہ اگر وہ ضرورت ہم پوری نہ کریں تو ہمارا دین ناقص رہ جائے۔ اور وہ ضرورت ہے حسن ِ معاشرت۔ اگر مسلمان آپس میں ایک اچھا نظام ِ معاشرت پیدا کرنے میں ناکام ہیں تو اس کا مطلب ہیکہ وہ اپنے دین کے ساتھ تعلق کے دعوے میں سچے نہیں ہیں۔ رسول اللہؐ کے دین کی لائی ہوئی خاصیت اور تاثیر ہی ایسی ہے جس کو سمجھنے کے لیے کوئی عالم یا صوفی وغیر ہ ہونا ضروری نہیں ہے، صرف سچے دل سے اور پوری آمادگی کے ساتھ یہ مان لینا کہ میں اللہ کو ایک مانتا ہوں، اپنا مالک ومعبود مانتا ہوں، رسول اللہؐ کی پیروی کا پختہ عزم رکھتا ہوں، اس سے ہی آدمی اس دین کی جو پہلی تاثیر محسوس کرے گا وہ ہے تعلق میں سچائی اور وفاداری۔ رسول اللہؐ کو دو چیزوں کی بہت فکر رہتی تھی، دو مضامین ایسے ہیں جو آپؐ کے اقوالِ مبارکہ میں تسلسل کے ساتھ، تکرار کے ساتھ اور طرح طرح سے بیان ہوئے ہیں۔ پہلا مضمون ہے اللہ سے تعلق اور اس کے آداب، اور دوسرا امت کے باہمی تعلق کا نظام۔ آپؐ اس بات پر نظر رکھتے تھے کہ لوگ ان دونوں معاملات میں چوکس ہیں یا نہیں!
اللہ سے تعلق میں سچائی اور وفاداری اور آپس کے تعلق میں اخوت اور خیرخواہی۔ مسلمان کی زندگی کے یہ دو انفرادی اور اجتماعی، اور باطنی و ظاہری معیارات ہیں جن پر عمل اور اخلاق ہی نہیں بلکہ ایمان بھی پرکھا جاتاہے۔ اگر کوئی شخص رسول اللہؐ کے دیے ہوئے نظامِ معاشرت کا حصہ نہیں بنتا تو اس کا اللہ سے تعلق بھی محض ایک وہم ہے۔ ابھی ہم نے جو احادیث پڑھی ہیں ان میں پہلی ہی حدیث یہ ہیکہ سب آپس میں تواضع سے پیش آؤ، کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور سرکشی نہ کرے۔ تواضع اس عاجزی کو کہتے ہیں جس کا اظہار بھی ہوجائے۔ یعنی دل میں اپنی عاجزی کا احساس اور رویے اور عمل سے اس کا اظہار! یہ تواضع ہے۔ ایک دوسرے کے مقابلے میں بڑے نہ بنو، ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنی کسی چیز پر گھمنڈ نہ کرو، یعنی دوسرے کی توہین، تذلیل اور تحقیر نہ ہونے دو۔ یہ اسی طرح واجب ہے جس طرح نماز۔ آدمی نمازی تو ہے لیکن دین کے اس معاشرتی آئڈیل سے لاتعلق ہے بلکہ اس کا رویہ اور عمل اس کے برخلاف ہے تو اس کی نماز اور اس کا تعلق باللہ بھی ناقص ہے۔ اور یہ نقص محض قانونی نقص نہیں ہے بلکہ وجودی نقص ہے۔ کیونکہ اس آدمی کے اندر تعلق کا وہ جوہر اور وہ صلاحیت تو بیدار ہی نہیں ہوئی جسے بیدار کرنے کے لیے یہ دین آیا ہے اور دین کے احکام درحقیقت اسی تعلق کی تفصیلات ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان اور اسلام میں سچا ہونے کے لیے اس بات کی بہت بنیادی ضرورت ہے کہ ہم رسول اللہؐ کی بنائی ہوئی معاشرت کو اپنے اندر جاری کریں۔ لیکن عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں حسن ِ معاشرت کو دینی مقصود سمجھا ہی نہیں جاتا۔ حتیٰ کہ ہماری دینی تعلیم کے
نظام میں بھی اسلام کے مطلوبہ معاشرتی وجود کی تربیت کا کوئی مؤثر اور منظم اہتمام نظر نہیں آتا۔ معاشرت کی تشکیل میں دین کا کردار ویسے ہی بہت محدود ہوگیا ہے، اوپر سے ذوقِ دین میں ایسا بگاڑ آگیا ہے کہ دین کے وہ مطالبات خود اہل ِ دین کے لیے اجنبی بنتے جار ہے ہیں جن کا تعلق آداب ِ معاشرت سے ہے۔ انسانوں میں باہمی تعلق میں قلبی اور اخلاقی زندگی کے اسباب کمزور پڑ جائیں تو اس کا اثر اس ذوق ِ وابستگی اور استعدادِ تعلق پر بھی پڑتا ہے جو تعلق باللہ کے لیے درکار ہے۔ انسان کو اپنی انفرادی ترقی کے لیے جس طرح کی تنہائی کی ضرورت ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے اس کے لیے بھی ایک پورا نظامِ خلوت دیا اور فرد کی نشو ونما کے تمام امکانات کو بندگی کی روح کے ساتھ پورا کرنے کا راستہ دکھایا۔ اور اسی کے ساتھ انسان کے اجتماعی وجود کے دونوں دائروں، یعنی ریاست اور معاشرے کو ان کے آئڈیلز کے ساتھ عمل میں لاکر دکھا دیا۔ ریاست ایسی بنائی جو مساوات پر قائم تھی اور معاشرہ ایسا بنایا جو مواخات پر مبنی تھا۔ تو وہی مواخات جس کو رسول اللہؐ نے مسلم معاشرت کا اصول بنایا تھا، آج مسلمانوں کے اندر اسی دینی تقاضے اور اخلاقی مطالبے کے طور پر موجود نہیں ہے۔ ایک معاشرے کے افراد اپنی بقا کے لیے، اخلاقی ضمیر کی بیداری کے لیے، دینی روح کی زندگی کے لیے اور آخرت اساس دنیاوی فلاح کے لیے جن اقدار کی پاس داری کرتے ہوئے ایک دوسرے سے متعلق رہتے ہیں، وہ اقدار اب ہمارے طاقِ نسیاں میں بھی نہیں رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں چاروں طرف سے یہ سننا پڑ رہا ہے کہ اسلام ایک ڈراؤنا دین ہے، تشدد پسند افراد پیدا کرتا ہے، نفرت پر مبنی سوسائٹی بناتا ہے اور دوسروں پر حملہ آوری کے منصوبے بنانے والی ریاست کھڑی کرتا ہے۔ اب ہمیں دین کی تجدید ِ نو کرنی ہی ہے مگر اس سے پہلے اپنا احیا کرنا ہے۔ اس وقت پہلا کام یہی ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے کی تجدید کریں اور اسلام سے اپنی طبعی اور نفسیاتی مغائرت کا علاج کریں اور دین کے ان تقاضوں کو اپنے سامنے لائیں جن کو ہم نے چھپا رکھا ہے۔ ورنہ بھائی اس وقت واقعی صورت ِ حال یہ ہے کہ دنیا میں جتنے غیر مسلم ہیں ان کی دو قسمیں ہیں: ایک تو وہ جنہوں نے کلمہ نہیں پڑھا اور دوسرے وہ جنہوں نے کلمہ پڑھا ہے اور خود کو مسلمان کہتے اور کہلواتے ہیں۔ تو گویا آج ہمیں اپنے ایمان کی تجدید وتکمیل کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم زبانی اقرار کے مردہ بدن میں قلبی تصدیق کی روح پھونک سکیں، یعنی ایمان کی خالی خولی صورت کو اس کی حقیقت فراہم کر دیں۔ غضب خدا کا، ترک ِ صلاۃ امت کی اکثریت کا شعار ہے اور پھر بھی ہم امت کو روتے جا رہے ہیں۔ امت کی وحدت کا وہ تصور ہی شیطانی ہے جس میں نماز شرطِ وحدت نہیں ہے۔ اسی طرح اور بھی بے شمار چیزیں ہیں جن سے ہم نے خود کو منحرف کر رکھا ہے اور دعویٰ مسلمانی کا کرتے ہیں۔ قلب کی لاتعلقی کے ساتھ محض کچھ لفظوں کو زبان سے ادا کردینے کو کافی سمجھنے کی روش صرف عوام میں نہیں ہے بلکہ طبقہ ٔ خواص بھی الا ماشاء اللہ اس وبائی مرض کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ کبھی موقع ملے تو مذہبی مباحثے دیکھ لیجیے، تحریری بھی تقریری بھی، آپ پر واضح ہوجائے گا کہ کس طرح باغ بانی کی ذمے داری لینے والے لوگ دین کے طیب شجر کو بداخلاقی اور بہتان تراشی کے زہریلے پانی سے سینچ رہے ہیں۔ کوئی دینی بحث خیرخواہانہ استدلال کے بغیر ہوسکتی ہے؟ لیکن یہ خدائی فوج دار دلیل اور نصیحت کی جگہ کذب وبہتان کو اتنے وسیع پیمانے پر اپنا ہتھیار بنا چکے ہیں کہ اگر کہیں کوئی صاحب مہذب انداز سے مذہبی مکالمہ کرتے نظر آئیں تو باقاعدہ حیرت ہوتی ہے۔ خود میں نے ایسے خود ساختہ مجاہدین فی سبیل اللہ کو بھگت رکھا ہے، میں بھی ان کے الزامات کی بارش میں بھیگ چکا ہوں۔ اس تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ کم ازکم میرے کرم فرما یا تو خود جھوٹے ہیں یا پھر ان کی باتوں پر یقین کر لینے والے ایسے ناسمجھ لوگ ہیں جن کے نفس میں ابھی اتباعِ سنت کے ساتھ ابتدائی مناسبت بھی پیدا نہیں ہوئی۔
(باقی آئندہ)