کاروبار ٹھپ‘ معیشت مستحکم

266

وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیں گے۔ معیشت درست سمت میں گامزن ہے، حکومتی ترجمان عوام کو یہ بات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کے لیے منصوبہ بندی سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ یہ طویل مدتی پالیسیوں پر گامزن ہیں۔ 50 سال پہلے کیے جانے والے کام اب کررہے ہیں۔ وزیراعظم اپنی گفتگو میں اچانک متضاد باتیں بھی کرنے لگے۔ ایک جانب کہا کہ معیشت مستحکم ہوگئی ہے تو اسی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ بنگلادیش اور بھارت ہم سے آگے نکل گئے۔ ملک میں رائج نظام تعلیم سے قوم تین درجوں میں تقسیم ہوگئی۔ برصغیر میں مہنگی ترین بجلی ہماری ہے۔ یعنی ایک جانب مستحکم معیشت کے دعوے تو دوسری جانب اپوزیشن لیڈر کی طرح تنقید۔ حکومت کے قیام کو تین سال ہوچکے اور وزیراعظم اب تک دیں گے، کریں گے، ہوجائے گا کہنے میں مصروف ہیں۔ اب تو انہیں یہ بتانا چاہیے کہ یہ کردیا، یہ ہوگیا اور یہ ہورہا ہے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی مضحکہ خیز ہے کہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دیں گے۔ وزیراعظم بتائیں کہ جب بجٹ آئی ایم ایف کی ہدایات پر بنے گا تو عوام کو ریلیف کیونکر ملے گا۔ انہوں نے یہ کہہ کر حکومتی ترجمانوں کو کام دے دیا کہ معیشت کے درست سمت میں گامزن ہونے کی بات عوام کو بتائیں۔ اب یہ ترجمان معیشت کی بہتری اور استحکام کی قوالی گائیں گے۔ مگر حقائق تو اس کے بالکل برعکس ہیں۔ کاروبار بُری طرح متاثر ہے، تنخواہیں اپنی جگہ منجمد ہیں اور قیمتیں ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ چھوٹا کاروبار تباہ ہوچکا ہے، بیروزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ حتیٰ کہ جو زکوٰۃ دیا کرتے تھے اب وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوگئے ہیں اور حکومتی رپورٹس سب اچھا ہے کا راگ الاپ رہی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ بیروزگار ہورہے ہوں، کاروبار ٹھپ ہورہا ہو اور معیشت مستحکم قرار پائے۔ لیکن یہ کمال عمران خان صاحب کا ہے کہ وہ بیک وقت دو متضاد باتیں کرکے بھی کہتے ہیں کہ میں درست کہہ رہا ہوں۔ یہ جو طویل مدت پالیسیاں ہوتی ہیں یہ کیا ہوتی ہیں۔ آج تک کسی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا جو طویل مدت کا ہو اور وہ بروئے کار بھی آگیا ہے پوری طرح نافذ بھی ہوگیا ہو۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ صرف الیکشن تک کی منصوبہ بندی سے ملک ترقی نہیں کرتے لیکن ایک جمہوری حکومت کو اپنی حکومت کی مدت کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تین برس میں کسی ایک شعبے کو ٹھیک کردیا گیا ہوتا تو کہا جاسکتا تھا کہ حکومت درست سمت میں جارہی ہے۔ لیکن ہر کام کو شروع کرکے بھاری پتھر سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ احتساب شروع کیا تو مافیاز آڑے آگئیں اور ان کا خاتمہ کرنے کے بجائے ان سے مفاہمت شروع کردی۔ اب بھی حکومت جتنے کام کررہی ہے وہ سب الیکشن کو سامنے رکھ کر کیے جارہے ہیں اور نتائج اگلی مدت پر چھوڑے جارہے ہیں۔ دوبارہ جیت گئے تو پھر اسی طرح کے بیانات کے سہارے پانچ سال گزار دیں گے اور ہار گئے تو اگلی حکومت بھگتے گی۔ ہمارا میڈیا بھی صرف حکمرانوں کا ترجمان ہے یا ممکنہ حکمرانوں کا۔ قوم کی ترجمانی اب کہانی بن چکی ہے۔ جو سیاسی جماعتیں قوم کی اصل ترجمان ہیں میڈیا ان کو جگہ نہیں دیتا ،دعوے تو ہر حکمران کرتا ہے لیکن محض دعوے کرنے والوں کے دعوئوں کا پوسٹ مارٹم تو میڈیا ہی کو کرنا ہے۔ مگر وہ تو پیٹ کے بندے بن گئے ہیں۔ مالکان اپنی جائدادیں بچانے اور اپنے کاروبار کو بچانے کی خاطر مفاہمت کرنے لگے ہیں۔ یہ کھیل اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک عوام اپنے انتخابی رویے تبدیل نہیں کریں گے اور میڈیا کے سحر سے نکلیں گے۔ اپنا تجزیہ خود کریں گے۔ حکمرانوں کو ان کے دعوئوں اور وعدوں کے تناظر میں تولیں گے تو پھر ان کو تبدیلی ملے گی۔ ہمارے ماہرین معاشیات اور حکمرانوں کی رپورٹوں کا حال تو اس مریض اور ڈاکٹر جیسا ہے جس میں ڈاکٹر مریض کا معائنہ کرنے کے بعد بتاتا ہے کہ اس کا بڑا آپریشن ہوگا۔ اس کے بغیر مرض کا علاج نہیں۔ چناں چہ مریض کو اسپتال میں داخل کرکے ڈاکٹر کے حوالے کردیا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر کئی گھنٹے کے آپریشن کے بعد تھیٹر سے باہر آکر کہتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہوگیا۔ البتہ مریض کا انتقال ہوگیا ہے۔ ہم نے بیماری کا سبب بننے والا پھوڑا نکال دیا ہے۔ اب آپ میت لے جاسکتے ہیں۔ پاکستانی ماہرین معیشت بھی یہی کرتے ہیں آئی ایم ایف کے ڈاکٹر سے ٹیکا لگوانا ضروری قرار دیتے ہیں۔ یہی کچھ کہتے ہیں اشاریے بلندی کی جانب گامزن، بیرون ملک سے ترسیل زر میں اضافہ، 102 روپے کے ڈالر کو 170 پر لے جانے کے بعد 150 سے 155 کے درمیان ڈولنے پر 20 پیسے اوپر ہونے پر کہا جاتا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہوگیا۔ ساری رپورٹیں اچھی ہوتی ہیں لیکن ملک میں کاروبار ٹھپ ہوتا ہے۔ معیشت مستحکم کہلاتی ہے۔