سگریٹ نوشی اور اس کے ہولناک نتائج

489

ایک خبر کے مطابق دنیا میں سگریٹ نوشی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ خبر کے مطابق 2019ء میں ایک ارب 10 کروڑ افراد سگریٹ نوشی کے عادی تھے جن میں 10 فی صد اضافہ ہوچکا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب 30 کروڑ لوگ سگریٹ پی رہے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق سب سے زیادہ سگریٹ نوش چین میں پائے جاتے ہیں جہاں سگریٹ پینے والوں کی تعداد 34 کروڑ سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس سال دنیا میں سگریٹ نوشی سے 77 لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 36 فی صد مرد اور 9 فی صد خواتین تمباکو نوشی میں مبتلا ہیں۔ بدقسمتی سے نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کا رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ نوجوان سگریٹ پی کر خود کو ’’بڑا‘‘ سمجھتے ہیں اور وہ سگریٹ پینے پر فخر کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ سگریٹ میں نیکوٹین پایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ یہ مادہ کئی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ بیماریاں سگریٹ نوش افراد کو نہ جینے دیتی ہیں نہ مرنے دیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق سگریٹ نوشی سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفرڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈروجن سائنائیڈ انسانی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں تپ دق، پھیپھڑوں کا سرطان، سانس کے امراض، دائمی کھانسی، اختلاج قلب، بلند فشار خون، فالج، گردوں کے فعل میں کمی اور ہڈیوں کی کمزوری جیسے امراض عام ہیں۔ ماہرین کے مطابق سگریٹ پینے والے افراد میں سگریٹ نوشی کے منفی نفسیاتی اثرات بھی پائے جاتے ہیں۔ چناں چہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے والے افراد میں چڑچڑاپن، ڈپریشن اور ذہنی ابہام جیسے مسائل موجود ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی نہ صرف یہ کہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے لیے جان لیوا ہے بلکہ تمباکو نوشی کرنے والے افراد کے آس پاس موجود لوگ بھی خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں سگریٹ نوشی کے دھوئیں سے متاثر ہونے والے افراد کو Passive Smoker کہا جاتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ اگر آپ سگریٹ پینے والے کے آس پاس ایک گھنٹے تک موجود رہیں گے تو آپ ایک سگریٹ کے برابر دھواں اپنے جسم میں داخل کرنے کے مرتکب ہوجائیں گے۔ اس طرح سگریٹ پینے والے نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی سے کھیلتے ہیں بلکہ وہ اپنے آس پاس موجود لوگوں، خاص طور پر بچوں اور خواتین کی زندگی سے بھی کھیل رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں صورتِ حال کی اس سنگینی کا کسی کو ادراک نہیں ہوتا۔ سگریٹ نوش دھڑلے کے ساتھ محفلوں میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے ہیں اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ طبی تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ کورونا کا وائرس انسان پر اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب انسان کی قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے اثرات پھیپھڑوں پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ یہ بات طبی حقائق کا حصہ ہے کہ سگریٹ نوشی انسانی قوت مدافعت کو کمزور بناتی ہے اور پھیپھڑوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں ان کے کورونا سے متاثر ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تمباکو نوش افراد کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح عام شرح سے 14 فی صد زیادہ تھی۔ تمباکو نوشی کے نشہ آور تاثیر اور ہولناک نتائج کو دیکھتے ہوئے علما اور فقہا نے تمباکو نوشی کو ’’مکروہ‘‘ قرار دیا تھا مگر جب تمباکو نوشی کے زیادہ ہولناک نتائج سامنے آئے تو علما اور فقہا نے اسے حرام قرار دے دیا۔ اس سلسلے میں 1982ء میں مدینہ میں ہونے والی کانفرنس برائے انسداد منشیات میں 17 جید علمائے کرام نے جن میں مفتی اعظم سعودی عرب عبدالعزیز بن باز بھی شامل تھے سگریٹ نوشی کو حرام قرار دے دیا۔ سگریٹ کو حرام قرار دینے کے لیے قرآن مجید کی جن آیات سے استنباط کیا گیا ان میں سے سورہ بقرہ کی وہ آیت بھی شامل تھی جس میں کہا گیا ہے کہ تم اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ ایک آیہ مبارکہ وہ بھی تھی جس میں ارشاد ربانی ہے کہ ان کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اس ارشاد نبوی سے بھی مدد لی گئی کہ ہر نشہ آور شے خمر ہے اور خمر حرام ہے۔ مگر بدقسمتی سے مسلم دنیا میں تمباکو نوشی کو اس کے وسیع تناظر میں دیکھا ہی نہیں جاتا۔ چناں چہ تمباکو نوشی کے خلاف نہ علما آواز اٹھاتے ہیں نہ سیاسی جماعتیں مہم چلاتی ہیں، نہ دانش ور اور ذرائع ابلاغ اس سلسلے میں شعور کو عام کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات بھی اس سلسلے میں کوئی مربوط اور منظم مہم نہیں چلاتے۔ عام طور پر نوجوان ماحول کے زیر اثر سگریٹ پینا شروع کرتے ہیں مگر ہم ماحول کے جبر کو توڑنے کے لیے بھی کچھ نہیں کرتے۔ دنیا بھر میں حکمرانوں کی یہ منافقت عام ہے کہ حکومتیں سگریٹ نوشی کو صحت کے لیے مضر بھی قرار دیتی ہیں اور تمباکو نوشی کی صنعت اربوں روپے بھی کماتی ہیں۔ سگریٹ پینا آسان ہے مگر اس کو ترک کرنا آسان نہیں۔ لوگ اعلان کرتے ہیں کہ وہ سگریٹ پینا چھوڑ رہے ہیں مگر ان کا حال اس شعر جیسا ہوتا ہے۔
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ سگریٹ چھوڑنے سے اس کا ذہن کام کرنا چھوڑ دے گا۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ سگریٹ چھوڑ کر وہ کوئی تخلیقی کام نہیں کرسکتا، یہ تمام باتیں قوت ارادی کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہیں۔ قوت ارادی مضبوط ہو تو سگریٹ چھوڑنا انتہائی آسان ہے۔ مسلمانوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کو سال میں ایک مہینہ ایسا ملتا ہے جب سگریٹ نوش چودہ پندرہ گھنٹے تک روزے کی وجہ سے سگریٹ نہیں پیتے مگر بدقسمتی سے سگریٹ پینے والے مسلمانوں کی اکثریت رمضان المبارک سے استفادہ کرتے ہوئے سگریٹ نہیں چھوڑ پاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ملکوں میں بھی تمباکو نوشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس سلسلے میں معاشرے اور ریاست کو ایک مربوط حکمت عملی بنانی ہوگی اور تمباکو نوشی کے خلاف جہاد کرنا ہوگا۔ ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہر سال ہمارے لاکھوں افراد سگریٹ کے ہولناک نتائج کی نذر ہوتے رہیں گے۔