اہم کون کتے یا انسان

346

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون میں کتے کے کاٹنے سے 11 سالہ بچہ جاں بحق ہوگیا۔ رواں سال کتوں کے کاٹنے سے یہ 12 ویں موت ہے۔ مگر یہ 12 ویں نہیں ہے 12 اموات تو رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے لوگ اس کی باقاعدہ رپورٹ بھی نہیں کرتے۔ سندھ ہائی کورٹ کے واضح حکم کے باوجود بلدیاتی ادارے آوارہ کتوں کو نہیں مار رہے۔ بلکہ ان کی آوارہ کتوں کو انسانوں کو کاٹنے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ یہ ادارے عدلیہ سے نہیں ڈرتے بلکہ جانوروں کے تحفظ کے نام پر کتوں کے سرپرست اداروں اور مال بٹورنے والی این جی اوز سے ڈرتے ہیں، یا ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن ان کو عوام کے تحفظ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہ جعلی این جی اوز اگر ان کتوں کی اتنی ہمدرد ہیں تو بلدیہ والے اتنا ہی کریں کہ اس تنظیم کے ہر کارندے کے گھر دس دس آوارہ کتے باندھ کر آجائے تا کہ وہ ان کتوں کی دیکھ بھال کرسکیں۔ اس کے علاوہ عدالت ان تمام این جی اوز کو حکم دے کہ جو این جی اوز جس جانور کے تحفظ کے لیے نعرے لگاتی ہے وہ ایسے کم از کم ہزار جانوروں کا تحفظ کرنے کے لیے کوئی جگہ مختص کرے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی ملک میں حکومت کے لیے اپنے عوام کا تحفظ اہم ہوتا ہے یا آوارہ کتوں کا۔ یہاں تو جو تنظیمیں غیر ملکی ایجنڈا رکھتی ہیں وہی کتوں کے تحفظ کے لیے کھڑی ہوتی ہیں اور ان تنظیموں کی تعداد بھی مٹھی بھر ہے اور ان کے ساتھ عوام بھی نہیں ہیں۔ بس یہ غیر ملکی اداروں کے لیے کام کرتے ہیں جو انسانوں کو بمباری سے بھوننے پر تو خاموش رہتے ہیں اسرائیل کی مذمت کے لیے ان کے لب تک نہیں ہلتے۔ افغانستان اور بھارت میں انسانوں پر مظالم پر یہ خاموش ہیں انہیں بس فکر ہے تو آوارہ کتوں کی۔ اس سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔