…!!گفتار کے غازی

727

وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے پہلے خطاب والی بات دھراتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مسلمان ریاست مدینہ کے اصولوں پر عمل کرکے ہمیشہ کامیاب ہوئے۔ ان کے بقول جن ممالک میں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہ جلدیا بدیرتباہ ہوجاتے ہیں، طاقتور کو قانون کے نیچے لانا معاشرے کی ترقی کا راز ہے، انہوںنے کہا کہ سیدنا محمدؐ نے مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھی، 12 سال کی قلیل مدت میں 2 سپر پاورز روم اور فارس نے نئے انقلاب کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل کرکے مسلمان کامیابی اور کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرسکتے ہیں، جن ممالک نے ان اصولوں پر عمل کیا وہ ترقی کرگئے‘‘۔ ریاست مدینہ کا جملہ صبح شام وزیراعظم عمران خان کے وردِ زبان رہتا ہے۔ عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ہی بات پچاس مرتبہ بولتے ہیں لیکن ایک بار بھی عمل کی طرف نہیں آتے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ریاست مدینہ کی حکمرانی کے اصول بیان کرنے سے وہ معاشرہ قائم ہوجائے گا جس کا آپ بار بار دعویٰ کررہے ہیں؟ یا اس کے کچھ اور تقاضے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ اس وقت ملک معاشی، سیاسی، سماجی لحاظ سے پستی کے آخری درجے میں ہے، لوگ غربت کے ہاتھوں اپنے بچوںکو موت کی نیند سلارہے ہیں حقیقی صورت حال تصور سے زیادہ خوف ناک ہے اور اصل معیشت کی تصویر دعووں کے برعکس ہے۔ حقیقی معیشت کا مظہر تو ملتان کے علاقے حامد پورہ کنورہ میں ایک ہفتہ قبل پیش آنے والے واقعہ ہے جس میں تین بچوں اور والد کی موت واقع ہوئی، جس کی جو ہولناک اور افسوسناک تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق واقعے میں والدین نے انکشاف کیا ہے کہ اُس نے باقائدہ منصوبے کے تحت غربت اور افلاس سے تنگ آکر بچوں کو کھانسی کے نام پر زہریلی دوا کھلائی، جس کی وجہ سے اُن کی اموات ہوئیں۔ پولیس کے مطابق شوہر خود جاکر زہریلی دوا لایا اور پھر یہ خاتون کے حوالے کی، دونوں نے مل کر رات کے وقت بچوں کو یہ دوا کھلائی، بعد میں دلبرداشتہ والد نے بھی زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے اس سے قبل رواں سال ہی فروری میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں، خودکشی کا ایک واقعہ کاہنہ میں پیش آیا تھا جہاں 12 سالہ ثقلین نے نئی پینٹ نہ دلانے پر خودکشی کرلی تھی، پولیس کے مطابق ثقلین نے والدہ سے پینٹ خریدنے کے لیے پیسے مانگے تھے، غربت کے باعث پیسے نہ ملنے پر ثقلین نے گلے میں پھندا ڈال کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔ ایک اور خود کشی کا واقعہ والٹن فلائی اوور پر رونما ہوا، 20 سالہ شفیق نے گھریلو حالات سے تنگ آکر والٹن فلائی اوور سے چھلانگ لگا کر موت کو گلے لگا لیا۔ یہ صرف چند اور تازہ مثالیں ہیں، دوسری طرف وزیراعظم اور ان کے مشیر بار بار کہہ رہے ہیں کہ معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے، جبکہ معاشی ترقی کے چار فی صد تک بڑھنے کا حکومتی دعوے کو بھی ماہرین معیشت ترقی کو حیران کن قرار دیتے ہوئے اعداد وشمار کا ہیر پھیر قرار دے چکے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے عبوری اعداد وشمار نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے تخمینے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جس کے مطابق شرح نمو دو فی صد رہے گی جب کہ دوسری جانب عالمی بینک کے 1.5فی صد شرح نمو کے تخمینے سے بھی حکومتی جی ڈی پی کا نمبر بہت اوپر ہے۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ مخالفین حیران ہیں کہ ملک کا شرح نمو 4 فی صد کیسے ہوگیا اور ہم پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا رہے ہیں، عمران خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک ترقی کے راستے پر چل پڑا ہے اور اچھا وقت آنے والا ہے، صنعت بھی چل پڑی ہے، اس مرتبہ چاول، گندم اور مکئی کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، اب ملک میں ڈالر زیادہ آرہے ہیں اور باہر کم جارہے ہیں لیکن کوئی وزیراعظم کو بتائے کہ اس وقت ملک میں غربت، افلاس اور بے روزگاری کا راج ہے، پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب ہیں، لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں، بیش تر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکھٹا سامان لانے کا رواج روز بروز ختم ہوتا جا رہا ہے۔ عمران خان جس ریاست مدینہ کی بار بار مثال دیتے ہیں اس میں لوگ اپنے بچوںکو غربت اور مہنگائی کی وجہ سے زہر دے کر نہیں مارتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت صرف معیشت کے دعووں میں ناکام نہیں ہے بلکہ ہر شعبے اور دعوے میں ناکام ہے وہ جس، ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں اس میں تو منکرات کے خاتمے کے لیے کوشش کی اور اقدامات اٹھائے جاتے تھے۔ جرائم کے خاتمے کے لیے حدود اللہ کو قائم کیا گیا۔ طاقت اور کمزور سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا تھا، انصاف اور میرٹ کی بالا دستی تھی۔ شراب نوشی، منشیات کا استعمال کرنے والوں کو سزا دی جاتی تھی، ریاست مدینہ میں فواحش اور منکرات کی کوئی گنجائش موجود نہ تھی، آپ کی ریاست میں انصاف اور میرٹ کہاں ہے.؟۔ آپ نے ’’احتساب سب کا‘‘ کا نعرہ لگایا اور اپنے اردگرد بیٹھے مافیائوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، احتساب کا نعرہ مذاق بن گیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں جابجا شراب فروخت ہورہی ہے، اسکول اور کالج کے بچے تک منشیات کا استعمال کررہے ہیں، فحاشی کے اڈے قائم ہیں، ٹی وی چینلز اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، یہ سب آپ کے دعووں اور آنکھوں کے نیچے ہورہا ہے، آخر آپ کو ان برائیوں اور جرائم کی بیخ کنی جو ریاست کی ذمے داری ہے سے کس نے روک رکھا ہے؟ ریاست مدینہ کے بانی سردار الانبیا نبی اکرمؐ نے خود خانہ کعبہ کے بتوں کو اپنے دست ِ مبارک سے منہدم کیا اور آپ کی حکومت اسلام آباد میں ایک بڑا مندر تعمیر کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسی طرح آپ کہتے ہیں کہ ملکی آمدن کا نصف سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے پھر جب آپ کو سود کی تباہ کاری کا ادراک ہے تو آپ اس سے جان کیوں نہیں چھڑا لیتے اور آپ نے اس ضمن میں آج تک کیا کیا ہے؟ حلانکہ آپ کے لگائے وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے 2018 میں کہا تھا کہ ’’ریاست مدینہ میں سود نہیں ہوگا اور ہم پہلے بلاسود بینکاری کو فروغ دیں گے جس کے بعد سود کے خاتمے کی طرف بڑھیں گے‘‘۔ کیا اس حوالے سے کوئی قانون سازی ہوئی یا اس کے لیے کوئی عملی کام ہوا۔؟ یقینا نہیں ہوا، تو پھر ایسا پاکستان کیسے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی جانب پیش رفت کرسکتا ہے؟ کیا محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرنے سے یہ کام ہوجائے گا؟ یقینا اس کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت تھی جو نہیں اٹھائے گئے۔ کیا ریاست مدینہ کے بنیادی تصورات کا تقاضا یہ جھوٹ اور دروغ گوئی ہے؟
حقیقی صورت حال یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کا تضاد اور صرف دعووں کا مجموعہ ہے اور ماضی کی حکومتوں کا تسلسل ہی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی حکومت کا مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن اور بیرون ملک قومی خزانے سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے دعوئوں کی طرح مدینے کی ریاست قائم کرنے کا دعویٰ بھی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ ریاست مدینہ گفتار سے نہیں کردار سے قائم ہوتی ہے۔ صرف باتوں سے من موہ لینے سے بات نہیں بنے گی کچھ کرنا بھی پڑے گا۔ اقبال نے کہا تھا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا