امریکا کی کامیابی

412

امریکا نے کمال ہشیاری سے ایک اور کامیابی حاصل کر لی ہے۔ 20 برس تک افغانستان کے پہاڑوں اور پہاڑوں جیسے عزم والے افغانوں سے سر ٹکرانے کے بعد پسپا ہونے والے امریکا نے ایک مرتبہ پھر پاکستان، افغانستان اور طالبان کو ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیا اور اب وہ خاموشی سے تماشا دیکھے گا۔ دو روز قبل امریکی نائب وزیر دفاع کی بریفنگ کی خبر آئی تھی کہ پاکستان نے اپنی حدود امریکا کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے بعد دفتر خارجہ نے محض رسمی تردید کی کہ پاکستان میں کوئی امریکی اڈا نہیں۔لیکن مسئلہ تو پاکستانی سرزمین اور فضائی حدود کے استعمال کا تھا۔ اس کی مزید تصدیق طالبان کی جانب سے ہوگئی۔ طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ پڑوسی ممالک امریکا کو اڈے دینے سے باز رہیں۔ ایک جگہ یہ خبر یوں شائع ہوئی ہے کہ خطے میں امریکی اڈوں کا قیام تاریخی غلطی ہوگی۔ لیکن صورتحال صرف یہاں تک نہیں پہنچی ہے بلکہ پاکستان کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ گویا دونوں طرف سے ایک ہی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ افغانستان تو باضابطہ امریکی اڈا بنا ہوا ہے، لیکن پاکستان نے بمشکل اس پالیسی سے رجوع کیا تھا اور اس کے سنگین نتائج بھی بھگتے تھے لیکن ایک بار پھر تاریخی غلطی دہرا دی گئی۔ اگر پاکستان افغان حکومت سے مطالبہ کر رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ یہی مسئلہ افغانستان کے لیے ہے کہ اگر افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوگی تو امریکا کو پاکستانی فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کی اجازت سے پاکستانی حدود افغانستان کے خلاف استعمال ہوں گی۔ اب پاکستانی حکومت، افغان حکومت اور طالبان ایک دوسرے کے سامنے ہیں۔ طالبان کا مقابلہ افغان حکومت کر سکتی ہے نہ امریکا کر سکا۔ پاکستان تو اس وقت بھی یہ جرأت نہ کر سکا جب جنرل پرویز مشرف برسر اقتدار تھے اور ساری دنیا ان کے ساتھ تھی۔ اب تو حالات اس قدر تبدیل ہو چکے ہیں کہ امریکا نے طالبان سے جو مذاکرات کیے ہیں وہ طالبان سے نہیں کیے بلکہ افغانستان کی امارت اسلامیہ سے کیے ہیںیعنی افغانستان کی اسلامی حکومت ہے۔ تو پھر اس حکومت کے خلاف امریکا کو پاکستانی حدود استعمال کرنے کی اجازت کیوں دی جائے۔ اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان میںکس کی حکومت ہے، امریکا کو پاکستانی حدود کے استعمال کی اجازت دینے کے نتیجے میں جتنے نقصانات ہوں گے وہ افغانستان کے اور افغان عوام کے ہوں گے پھرکوئی جوابی کارروائی ہوگی تو اس میں نقصان پاکستان کا ہوگا۔ الزامات، ثبوت، رپورٹیں، دعوے اور تصدیقیں تو پہلے بھی ہوتی رہیں لیکن زمینی حقیقت تو یہی ہے کہ نقصان ان دونوں ملکوں ہی کا ہوا ہے۔ 20 برس کی جاں گسل جدوجہد کے بعد امریکاناک رگڑ کر افغانستان میں شکست کا اعتراف کر چکا تھا لیکن تاریخی غلطی دہرا کر پاکستان کو دوسروں کی جنگ میں جھونک کر ایک مرتبہ پھر امریکا کو سانس لینے اور نئی سازشیں کرنے کا موقع دے دیا گیا۔ اس ساری واردات میں ایک اور معنی خیز پہلو مخفی ہے کہ پاکستان کے لیے آج کل جو ملک امریکا بنا ہوا ہے وہ چین ہے اور اب تک چین کی جانب سے کوئی سرکاری ردعمل اس صورتحال پر نہیں آیا ہے۔ اگر امریکا کو خطے میں تقویت ملے گی تو چین کمزور ہوگا یا اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ تو پھر یہ سب کیا ہے۔ یہ سب ’’الکفر ملت واحدہ‘‘ ہے جہاں مسلمان اور اسلام کا نقصان ہو یہ ایک ہوتے ہیںورنہ ان کے دل خود آپس میں پھٹے ہوتے ہیں۔ اگر کہیں سے کوئی ردعمل نہیں آرہا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور جانتے بوجھتے امت مسلمہ کے نقصان پر خاموش ہیں جس طرح فلسطین کے مسئلے پر حال ہی میں سلامتی کونسل میں کھیل کھیلا گیا ہے۔یہی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سوڈان کی تقسیم اور انڈونیشیا میں مسلمانوں سے علاقہ چھیننے کے لیے اس قدر سرگرم تھے کہ دنیا کا اولین مسئلہ مشرقی تیمور اور سوڈان کو بنا دیا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت اور سیاسی قیادت کو مل بیٹھ کر ایسے کسی اقدام کے بارے میں اچھی طرح غور کرنا چاہیے۔ اس سے قبل ہونے والے ایسے کاموں کے نقصانات کا جائزہ لینا چاہیے اور قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس قسم کا بیان ضرور دیا ہے کہ سیاسی تصفیے سے افغانستان میں لڑائی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کاش حکمران ایسا کرنے لگیں۔ یہ تو اپنے عوام سے طاقت کی زبان میں بات کرتے ہیں اور دشمن سے دوستی کی باتیں کرتے ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو صورتحال پاکستان کے لیے خطرناک ہے اس پر سنجیدگی سے نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کی درست ترجمانی تو امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کر دی ہے کہ استعماری طاقتیں افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام سے خوفزدہ ہیں۔ اصل مسئلہ بھی یہی ہے اس لیے کفر ملت واحدہ بنا ہوا ہے اس کا علاج مسلمانوں کو امت واحدہ بن کر ہی کرنا ہوگا۔ الگ الگ آوازوں سے کچھ نہیں ہوگا۔