جسٹس فائز کیس۔ کیا ملک کے مسائل ختم

161

حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف پھر درخواستیں دے دی ہیں جس میں تمام ججز پر مشتمل بنچ بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔ حکومت نے 70 صفحات پر مشتمل آئینی درخواست ازخود نوٹس دائرہ اختیار کے تحت دی ہے۔ ابھی تو رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض لگا کر درخواست واپس کر دی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایک ہی کیس میں دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی اور حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پٹیشن دوبارہ داخل کریں گے۔ حکومت کا کوئی ترجمان بتا دے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس اس قدر اہم ہے کہ ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور امن اور معاشی بدحالی کے مسائل کو چھوڑ کر حکومت صرف اسی کیس کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ کیا کوئی ماہر بتا سکتا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو مجرم قرار دینے کے بعد ملک میں مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ عوام سکھ کا سانس لینے لگیںگے۔ جس وباکورونا کو حکومت حد سے زیادہ بڑھاتی اور اچانک غائب کرتی ہے اس کے نام پر فنڈز بٹورتی ہے اور عوام کو کسی قسم کی سہولت نہیں دیتی اس کے خاتمے کے لیے بھی اسی قدر بے چینی ظاہر کی جاتی تو بات سمجھ میں آتی۔ لیکن صاف ظاہر ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کیس کا تعلق عوام اور پاکستان کے مفاد سے نہیں ہے بلکہ سارا مسئلہ انہیں روکنے کا ہے۔ گویا اب عدلیہ اور اداروںکے درمیان بھی محاذ آرائی زور پکڑے گی۔رجسٹرار سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس دائرہ اختیار پر بھی گرفت کی ہے کہ یہ عدالتی اصطلاح ہے اسی طرح حکومت کی جانب سے توہین آمیز زبان کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کا کام اب یہی رہ گیا ہے۔ عدلیہ کے خلاف محاذ آرائی یا پچھلی حکومتوں کی بدعنوان کا رونا۔ تین سال میں کود کیا کام کیا ہے؟؟