!آئیے…توبہ کریں

316

فطرتِ انسانی ہے کہ دنیا میں آنے کے بعد انسان دنیا کی رنگینیوں، رعنائیوں اور ہمہ ہمی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بقولِ شاعر ؎نظرکو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضرکی
پھر یہی شیطانی تہذیب انسان کے سوچنے، سمجھنے، دیکھنے، پرکھنے کا انداز بدل دیتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات صحیح اور غلط کی تمیزکرنے کا معیار بھی بدل دیتی ہے۔ پھر اس کے نتیجے میں حق اور باطل کی پہچان کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ہونے والی ہلچل اور شیطانی مکر وفریب انسانوں کے ذہن وخیال کو آلودہ کرتے ہوئے اسے اپنے مقصدِ حیات سے بہت دور دھکیل دیتی ہے۔
ایسے میں ایک کثیر تعداد نفسانی خواہشات کی پیروی میں رب کو ناراض کرتے ہوئے گناہوں کی دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ لیکن ہمارا رب بڑا رحمان اور رحیم ہے۔ اس نے رجوع کا راستہ کھلا رکھا ہے، پلٹنے کی راہ روشن رکھی ہے، توبہ کے دروازے ہر وقت کھلے رکھے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ رب اپنے بندوں سے بڑی محبت کرتا ہے۔ اسی لیے اگر گناہوں میں زندگی گزارنے والا بھی موت سے پہلے رب کی طرف پلٹتا ہے، اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے، معافی مانگتا ہے تو رب نہ صرف خوش ہوتا ہے بلکہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں ذکر ہے جس کا مفہوم ہے کہ بے شک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اس محبت کو صحیح مسلم میں مروی حدیث میں نبی اکرمؐ نے بڑے ہی دل نشین انداز میں بیان کیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کی سواری کسی چٹیل میدان (صحرا یا ریگستان) میںگُم ہوجائے، تلاشِ بسیار کے بعد جب اس کو نہ پائے تو وہیں مایوس ہوکر اپنی آنکھیں بندکرلیں، اور جب وہ بیدار ہو تو اپنی سواری کو اپنے سامنے پائے۔ ایسے میں اسے جتنی خوشی ہوگی اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کے توبہ کرنے پر ہوتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے وہ شخص خوشی کے عالم میں رقصاں، شاداں وفرحاں نظرآئے گا۔ بلکل ویسے ہی رب بھی اپنے بندے کی توبہ اور رجوع سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو جو دو قطرے محبوب ہیں، اس میں سے ایک قطرہ وہ ہے جو کسی مسلمان کی آنکھ سے اللہ کے خوف سے بہنے لگے۔ گویا کہ یہ ندامت اور شرمندگی کا آنسو اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے کے بدن سے بہنے والے خون کے قطرے کے مشابہہ قرار پایا۔ اسی کو مولانا رومیؒ نے بہت خوب بیان کیا ؎
قطرۂ اشکِ ندامت درسجود
ہمسری خون شہادت می نمود
(سجدے میں بہنے والے ندامت کے آنسواللہ تعالیٰ کے نزدیک درحقیقت شہیدکے خون کے برابر ہیں)
فضیل بن عیاضؒ جو کہ اپنے زمانے کے بہت بڑے ڈاکو تھے، کسی گھر میں ڈاکا مارنے کے غرض سے داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے کہ اچانک گھرسے کسی شخص کی تلاوت کی آواز آئی: ’’کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل خوفِ خدا سے ڈر جائیں اور جو حق رب کی طرف سے ان کی طرف نازل ہوا ہے اُسے تسلیم کرلیں؟‘‘ فضیلؒ نے جیسے ہی یہ آیت سنی، وہیں اُن کے دل کی دنیا بدل گئی، ڈاکا چھوڑنے کا ارادہ کیا اور اونچی آواز میں کہنے لگے: ’’جی میرے رب! وہ وقت آگیا ہے‘‘۔ پھر انھوں نے ایسی توبہ کی کہ وقت کے ولی بن گئے۔
سنن ابن ماجہ میں روایت ہے، نبی کریمؐ نے فرمایا: گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے، گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
مفتی محمد شفیعؒ اپنے ان اشعار کے ذریعے سے گناہ گاروں کو امید دلاتے ہیں ؎
ظالم ابھی ہے فرصتِ توبہ، نہ دیرکر
وہ بھی گرا نہیں جو گرا پھر سنبھل گیا
دورِ نبوی میں ایک نوجوان جوکہ اپنے گناہوں پر بڑا نادم اور شرمسار تھا اور اسے یہ خوف تھا کہ اب رب اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ نبی اکرمؐ نے اسے اپنے پاس بلاکر تسلی دیتے ہوئے فرمایا: کیا تیرے گناہ زیادہ بڑے ہیں یا تیرا خدا؟ دراصل نبی کریمؐ کا یہ طرزِ عمل اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ گناہ گاروں سے نفرت کے بجائے انھیں امید دلاتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی نصیحت کرنی چاہیے۔
درحقیقت یہ اللہ کی اپنے بندوں سے محبت ہے۔ جسے رب بڑی عمدگی کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کرتاہے: ’’اے میرے وہ بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘ (سورہ الزمر53 )
ضرورت اس امرکی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پکّی توبہ کی جائے، گناہوں کو ترک کرنے کے ساتھ آئندہ نہ کرنے کا عزم رکھتے ہوئے رب کو منالیا جائے۔ جب ہم اس کیفیت کے ساتھ رب کے سامنے جھولی پھیلائیں گے تو رب تعالیٰ نہ صرف ہمیں معاف فرمائے گا بلکہ اپنا قرب عطا کرتے ہوئے ایمان میں ترقی بھی نصیب کرے گا۔