اسرائیل دہشت گرد ریاست

342

غزہ میں اسرائیل کی درندگی اور وحشیانہ جارحیت نے ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے۔ اس موقع پر بین الاقوامی برادری اور مسلم اُمہ کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ نہتے فلسطینی اپنا دفاع پتھروں سے کررہے ہیں جب کہ اسرائیلی گولہ بارود، ٹینک اور جنگی جہاز ان کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ یہ تمام مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اسرائیلیوں کا یہ اقدام جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ فلسطینی معصوم بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کا قتل عام اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ اب اسرائیل کی ریاست پوری دنیا میں دہشت گرد ریاست کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے جو امریکا اور برطانیہ کی کوششوں سے ناجائز طور پر وجود میں آئی تھی۔ اب حالت یہ ہے کہ اسرائیلی ٹینک غزہ میں داخل ہونے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور ابھی تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا باضابطہ اجلاس بھی شروع نہیں ہوسکا، شدید بمباری سے فلسطینیوں کے گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ 160 کے قریب جنگی جہاز فضائی حملوں میں مصروف ہیں، سات دہائی قبل اسرائیل کی ریاست جو ناجائز طور پر وجود میں لائی گئی تھی اس امر کا اعتراف خود اسرائیل کے بانی اور اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان کرچکے ہیں کہ ’’اگر میں عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی بھی کوئی سمجھوتا نہ کرتا، یہ اصل حقیقت ہے کہ ہم نے ان سے ان کا ملک چھینا، اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ بات دو ہزار سال پرانی بات ہے اب فلسطینیوں کا اس سے کیا واسطہ، دنیا میں یہودی مخالف تحریک، ہٹلر، نازی اور آش وٹنر بیشک رہے ہیں مگر اس کے ذمے دار فلسطینی ہرگز نہیں ہیں، ہم نے ان کی سرزمین پر آکر ان کی سرزمین پر قبضہ کرلیا، آخر وہ اس چیز کو کیونکر تسلیم کریں گے؟
ڈیوڈ بن گوریان کے ان خیالات کو پروفیسر اسٹیفن والٹ نے اپنی کتاب ’’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘‘ میں بڑے نمایاں طور پر شائع کر رکھا ہے اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ عالمی طاقتیں مسلسل اسرائیل کی پشت پناہی کرتی چلی آرہی ہیں اور پھر عرب ممالک نے برابر امریکا کو اپنی سرزمین پر فوجی اڈے بھی دے رکھے ہیں کیوں کہ ان ممالک میں بادشاہت ہے اور حکمران امریکا کے زیر سایہ رہ کر اپنا اقتدار مضبوط بنائے رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اپنی سرزمین پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ طور پر رسائی بھی دیتے ہیں۔ مسلم امہ کے اکثر شاہی خاندان اسرائیل کے ساتھ اپنے روابط بھی استوار کرچکے ہیں۔ حال ہی میں چند اسلامی ریاستوں اور عرب ممالک نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اس پورے سفارتی عمل میں امریکی پالیسی کار فرما تھی، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ غزہ میں اسرائیل آگ و خون کی جو ہولی کھیل رہا ہے اس کے جواب میں فوری طور پر عرب اور مسلم ریاستیں جو اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی روابط استوار کرچکی ہیں، ان روابط کو ختم کرنے کا اعلان کردیتیں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک ان ممالک کی جانب سے کوئی احتجاجی ردعمل بھی سامنے نہیں آیا، جب کہ برطانیہ اور امریکا کے بڑے شہروں میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف عوام کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ لندن میں ہر روز اسرائیلی سفارت خانے کے باہر ہزاروں کی تعداد میں شہری احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں اور اس احتجاج میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ لندن کی سڑکوں پر بھی برطانوی شہری اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاجی مارچ کرتے ہیں۔
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کی بھاری تعداد شہید ہورہی ہے جن میں بچوں اور خواتین کی کثیر تعداد شامل ہے۔ غزہ کی پٹی میں بچوں کے اسکول اور اسپتال بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ خاص طور پر فلسطینی مسجدوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اگر کسی طرح جاری رہی تو یہ المیہ گمبھیر صورت حال اختیار کر جائے گا اور خدشہ اس بات کا ہے کہ بڑے پیمانے پر ایک بڑی جنگ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اسرائیل کی اس جارحیت کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو آگے آنا اور اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطین میں پائیدار امن کا قیام اُس وقت تک ناممکن ہے کہ جب تک اسرائیل اپنی ریاستی دہشت گردی کی پالیسی ترک نہیں کرتا، عالمی سطح پر سفارتی محاذ گو کہ اپنی سرگرمی دکھا رہے ہیں جن میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو مل کر اسرائیل کو سبق سکھانا چاہیے۔ فلسطین میں اسرائیل کی درندگی اس امر کا تقاضا کررہی ہے کہ اب ہر طرح سے فلسطینی عوام کی مدد کی جائے۔ وقتی جنگ بندی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اس سلسلے میں مستقل حل کے لیے عالمی طاقتوں کو اپنا رویہ بدل کر آزاد اور خود مختار فلسطین کے قیام کے سلسلے میں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ 57 مسلم ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو بھی اس موقع پر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ترکی کے علاوہ جن ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ان میں سعودی عرب، پاکستان، ایران اور متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں۔
اسرائیل کی مسلم دشمنی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب اسرائیل بھارت اور افغانستان تک اپنی رسائی یقینی بنا چکا ہے۔ اسرائیلی موساد نے بھارت میں اپنے نیٹ ورک کو وسیع کر رکھا ہے اور یہ نیٹ ورک افغانستان میں بھی سرگرم ہے۔ پاکستان کی ایٹمی قوت کسی طور پر بھی نہ تو مغربی طاقتوں اور نہ ہی اسرائیل کو ہضم ہورہی ہے خاص طور پر اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے خوف زدہ ہے۔ ذرا اس امر سے اندازہ لگائیں کہ 1982ء کی دہائی اسرائیلی ڈیفنس فورس اور اسرائیلی بارڈر گارڈ نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ اسرائیل میں ایک ریفوجی کیمپ میں بچوں کے پلاسٹک کے کھلونے پکڑے گئے ہیں جو پاکستان کے تیار کردہ ہیں۔ یہ کھلونے ٹائم بم کے طور پر استعمال ہورہے ہیں۔ دوسری جانب ذرا اس ناجائز ریاست اسرائیل کی ڈپلومیسی ملاحظہ فرمائیں کہ اسرائیل نے واشنگٹن ڈی سی، کینیڈا، مغربی جرمنی اور آسٹریلیا میں اپنے سفارت خانوں میں موساد کے بڑے بڑے نیٹ ورک قائم کر رکھے تھے۔ اِسی طرز کا ایک نیٹ ورک لندن میں اسرائیل کے سفارت خانے میں بھی قائم کیا گیا تھا یہ 17 جون 1988ء کا واقعہ ہے کہ جب برطانیہ میں وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کا دور حکومت تھا برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 اور ایم آئی 5 نے یہ نیٹ ورک پکڑا جو سفارت کاروں کے قتل، اغوا اور دیگر دہشت گردی کی وارداتوں میں مصروف تھا اس انکشاف کے بعد برطانوی حکومت نے اسرائیل کے 5 سفارت کاروں کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر برطانیہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔
اسرائیل جو ناجائز طور پر ریاست کی شکل میں منظر عام پر آئی اس کی بھرپور سرپرستی امریکا نے کی اور اب بھی امریکا کے علاوہ دیگر مغربی طاقتیں بھی اس ناجائز ریاست کی پشت پر کھڑی ہیں جب کہ یہ ریاست ابھی دہشت گرد ریاست کے طور پر پوری دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ فلسطینیوں پر جبر اور ظلم کی انتہا ہوچکی ہے جب تک دنیا کے مہذب معاشرے اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند نہیں کریں گے یہ ناجائز ریاست پوری دنیا میں دہشت گردی پھیلانے کا باعث بنتی رہے گی۔ مغربی طاقتوں کو اب سوچنا ہوگا کہ عوام کی بھاری اکثریت اب اسرائیل کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکل رہی ہے اور آہستہ آہستہ یہ لاوا پک رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کا احتجاج اپنے حکمرانوں کو بھی اپنی لپیٹ لے لے، اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی مغربی طاقتیں دنیا میں امن و سلامتی قائم رکھنا چاہتی ہیں اور دنیا کو ایک اور عالمی جنگ سے بچانا چاہتی ہیں تو فلسطین میں درندگی اور ظلم و تشدد بند کروانے میں اپنا عملی کردار ادا کریں۔