آلودہ پانی دماغ، گیسٹرو ،جگر جلد اور معدے کے امراض کا سبب بنتا ہے

480

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) دنیا بھر میں 80% بیماریاں ناقص پانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ہر سال پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ، بنیادی طور پر وہ لوگ جو ترقی پذیر ممالک میں محفوظ اور قابل رسائی پانی کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں پیچش، معدے کے امراض، ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس ای جسے امراض میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔ دنیا بھر میں تقریبا 1.2 بلین لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں اور جب صاف پانی دستیاب نہیں ہوتا تو پانی سے پیدا ہونے والے انفیکشن بہت زیادہ ہونے لگتے ہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے لاحق بیماری بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور ان میں سے بہت ساری بیماریوں کا نتیجہ موت ہوتا ہے ۔کراچی ، لاہور ،اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جو پانی پینے کے لیے استعمال ہورہا ہے اس کا 75 فیصد حصہ پینے کے لیے نہ صرف مضر بلکہ ناقابل استعمال ہے۔ پاکستان میں ہر سال ڈھائی سے تین لاکھ لوگ گیسٹرو کا شکار ہوتے ہیں۔آلودہ پانی کا استعمال سے 5 سال سے چھوٹے بچوں میں دستوں کی بیماری 28 فیصد اموات کا سبب بنتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار ممبرنیشنل اسمبلی اسٹیئرنگ کمیٹی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر کنول ناظم،سینئرصحافی اوربین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت کے میگزین کی ایڈیٹرشبینہ فراز،جناح اسپتال کے شعبہ ای این ٹی کے سرجن اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمداورجامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیاتی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر وقارنے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ممبرنیشنل اسمبلی اسٹیئرنگ کمیٹی برائے وزارت موسمیاتی تبدیلی ، صدرسوسائٹی برائے تحفظ ماحولیات و مینگروز،ریسرچ کوآرڈینیٹرجنگلی حیاتیات اورملکی و غیر ملکی جرنلز میں 56سے زائد تحقیقی مقالوں کی مصنفہ ڈاکٹر کنول ناظم کا کہناتھا کہ آلودہ پانی جان لینے والا مہلک سیال بھی ہوسکتا ہے۔ دنیا میں تقریبا % 3.1 اموات پانی کے ناقص معیار کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 80% بیماریاں ناقص پانی سے پیدا ہوتی ہیں۔ندی ، جھیل ، سمندر یا پانی کے کسی حصے کے معیار کو ختم کرنا اور ماحول اور انسانوں کے لیے زہریلا بنانا آبی آلودگی کہلا تا ہے۔پانی کی آلودگی کی دو قسمیں ہیں۔نامیاتی آلودگی بیکٹیریا اور وائرس – مائکروجنزموں کی وجہ سے نامیاتی آلودگی پانی میں موجود ہے ، جو اخراج ، جانوروں اور سبزیوں کے فضلہ سے پیدا ہوتا ہے اور کیمیائی آلودگی کیڑے مار ادویات ، انسانی اور جانوروں کی دوائیوں ، گھریلو مصنوعات ، بھاری دھاتوں ، تیزابوں اور ہائیڈرو کاربن کے نائٹریٹ اور فاسفیٹ کے ذریعہ پیدا ہونے والا کیمیائی آلودگی،گھریلو اور صنعتی آلودہ کچرے کا اخراج ، پانی کے ٹینکوں سے اخراج ، سمندری ڈمپنگ ، تابکار فضلہ اور ماحولیاتی جمع پانی کی آلودگی کی بڑی وجوہات ہیں۔ بھاری دھاتیں اور صنعتی فضلہ جھیلوں اور ندیوں میں جمع ہوتا ہے اور انسانوں اور جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ صنعتی فضلہ میں ٹاکسن مدافعتی دباؤ آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ہر سال پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتی ہیں ، بنیادی طور پر وہ لوگ جو ترقی پذیر ممالک میں محفوظ اور قابل رسائی پانی کے بغیر زندگی بسر کرتے ہیں پیچش، معدے کے امراض، ہیپاٹائٹس اے اور ہیپاٹائٹس ای جسے امراض میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔دنیا بھر میں تقریبا 1.2 بلین لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں اور جب صاف پانی دستیاب نہیں ہوتا تو پانی سے پیدا ہونے والے انفیکشن بہت زیادہ ہونے لگتے ہیں۔ آلودہ پانی کی وجہ سے لاحق بیماری بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں اور ان میں سے بہت ساری بیماریوں کا نتیجہ موت ہوتا ہے۔آلودہ پانی کی وجہ سے سب سے زیادہ عام اور پریشان کن بیماریوں سے مندرجہ ذیل ہیں۔ٹائیفائیڈ،ہیضہ،گیسٹرو، پیچش، ہپاٹا ئٹس اے،سلمونیلا،پولیو سے تقریباً 844 ملین افراد کے پاس پینے کے پانی کا فقدان ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق ، حقیقت میں لگ بھگ 159 ملین افراد سطح کے پانی پر منحصر ہیں۔ مزید برآں کم از کم 2 ارب افراد پینے کے پانی کے جوذرائع استعمال کرتے ہیں وہ آلودہ ہوتے ہیں۔ پانی کے یہ ذرائع پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو منتقل کرسکتے ہیں ۔ جو ہر سال اسہال کی تقریبا 5لاکھ اموات سے منسلک ہوتے ہیں۔دنیا میں پانی سے پیدا ہونے والی 7 عام بیماریوں میں سے ، اسہال مرکزی علامت ہے۔ تازہ ترین تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ اسہال پانچ سال سے کم عمر بچوں کی موت کی دوسری اہم وجہ ہے ، جو ملیریا ، ایڈز اور خسرہ سے زیادہ بچپن میں اموات کا سبب بنتا ہے۔20برس سے ماحولیات کے موضوع پر لکھنے والی سینئر صحافی ،ایوارڈیافتہ اوربین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت کے میگزین کی ایڈیٹرشبینہ فرازکاکہنا تھا کہ ہمارے ملک میں یوں تو کسی قدرتی وسیلے کی کوئی قدر ہے اورنہ اسے بچانے کی فکر اور آبی ذخائر کے ساتھ تو ہمارا سلوک انتہائی ’’شاندار‘‘ ہے ، ہم اپنے ان قیمتی ذخائر یعنی سمندر، دریائوں ، جھیلوں اور چشموںکو بطور ’’گٹر‘‘ استعمال کرتے ہیں اور تمام گھریلو ، صنعتی اور زرعی کوڑا کرکٹ ، سیوریج اور فضلہ ان ہی میں بہا دیتے ہیں۔ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ پانی انسانی جانوں کے لیے کسی’’ واٹر بم‘‘ کا کام انجام دیتا ہے۔ پاکستان کے شہری کس قدر آلودہ پانی پیتے ہیں اس کے لیے چند سروے رپورٹ کے نتائج یہ تھے۔ 1997ء میں ایک سروے کے نتائج کے مطابق پانی کے293 نمونوں میں سے صرف48 یعنی16 فیصد نمونے محفوظ پائے گئے۔ PCSIR ہمارے ملک کا ایک معتبر سائنسی ادارہ ہے اس کی بھی ایک رپورٹ پانی کی شدید آلودگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کے مطابق کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ میں جو پانی پینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے اس کا75 فیصد حصہ پینے کے لیے نہ صرف مضر ہے بلکہ ناقابل استعمال بھی ہے۔ مذکورہ ادارے نے پانی کے یہ نمونے ان شہروں کے مختلف اسکولوں سے حاصل کیے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی سے تین لاکھ لوگ گیسٹرو کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ صحت کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ موت کی بیماریوں میں دستوں کی بیماریوں کا نمبر تیسرا ہے۔ پانچ سال سے چھوٹے بچوں میں یہ بیماری28 فیصد اموات کا سبب بنتی ہے‘ ہونا تویہ تھا کہ مختلف اداروں کی ان رپورٹس کے منظر عام پر آتے ہی ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان ہوتا اور تمام متعلقہ ادارے جنگی بنیاد پر بہتری کے اقدام میں مصروف ہو جاتے لیکن ظاہر ہے کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں کے مصداق حکومت کی ترجیحات میں فی الحال اس قسم کی سرگرمیوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ جناح اسپتال کے شعبہ ای این ٹی کے سرجن اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد کا کہنا تھاکہ آلودہ پانی کے استعمال سے مختلف بیماریاں جن میں ہیضہ، ہیپاٹائٹس، جلد کی بیماریاں وغیرہ شامل ہیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آلودہ پانی کے استعمال سے کان ناک گلہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے‘ کان کی مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں‘ جس کی وجہ سے کانوں میں انفیکشن ہوجاتا ہے اور پس (pus) آتی ہے۔ آلودہ پانی میں مختلف اقسام کے جراثیم پائے جاتے ہیں جو کان کی تکالیف اور انفیکشن کا باعث بنتے ہیں ان میں OtitisExternal اورotitis media شامل ہیں۔ اسی طرح ناک کی سوزش جلن اور سوزش آلودہ پانی کے استعمال سے واقع ہوتی ہے۔ گلے کے اندر مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں اس میں گلے کی سوزش، جلن، کھانے پینے میں رکاوٹ اور بخار‘گلے میں درد، Pharyngitisاورlaryngitis شامل ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ماحولیاتی علوم کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر وقارکا کہنا تھا کہ آلودہ پانی کے استعمال سے جو امراض جنم لیتے ہیں وہ واٹر بورن ڈیسیزز کہلاتے ہیں‘گٹر کے پانی کی صاف پانی میں ملاوٹ سے بھی امراض جنم لیتے ہیں۔ ان جراثیم میں کالی نام اور سیکل کولی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیگیلریا بھی آلودہ پانی سے آتا ہے اور ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے‘ آلودہ پانی کے استعمال سے پیٹ‘ جلد اور آنکھوں کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔