این اے 249 ضمنی الیکشن نے ثابت کردیا ،کراچی ایم کیوایم کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے

389

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) متحدہ قومی موومنٹ کو توانا و مضبوط بنانے میں اسٹبلشمنٹ کا کلیدی کردار تھا‘ اس جماعت کوٹا سسٹم کے خاتمے اور بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو وطن واپس لانے اور اس جیسے دوسرے نعروں کے ذریعے پروان چڑھایا گیا‘ این اے 249 میں ایم کیو ایم کو ملنے والے چند ہزار ووٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کراچی ان کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے‘ مستقبل میں کراچی کے شہری اس جماعت کو مکمل طور پر مسترد کردیں گے‘ مسلسل کامیابی حاصل کرنے والی جماعت2018ء میں 6 سیٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے‘ الطاف حسین کا ماضی ان کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کراچی کے جنرل سیکرٹری منعم ظفر، بزرگ سیاست دان این ڈی خان، ممتاز تجزیہ نگار رشید احمد اور سہیل احمدنے جسارت کے سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا کراچی متحدہ قومی موومنٹ کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے؟۔ منعم ظفر نے کہا کہ ایم کیو ایم کراچی میں پائی جانے والی محرومیوں کی وجہ سے سامنے آئی اور پروان چڑھی‘ متحدہ کو توانا و مضبوط بنانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار تھا‘ اس جماعت کوکوٹا سسٹم کے خاتمے اور بنگلا دیش میں محصور پاکستانیوں کو وطن واپس لانے اور اس جیسے دوسرے نعروں کے ذریعے پروان چڑھایا گیا‘ اسٹیبلشمنٹ کا مقصد متحدہ کے ذریعے شہر سے مذہبی ووٹ کو ختم کرنا تھا اس کے ساتھ کراچی کے دینی تشخص کو مجروع کرنا، شہر کی اخلاقی اور ثقافتی روایات کا خاتمہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 30 سال فسطائیت کے سال تھے جس میں کشت و خون ہوا شہر کے 25 ہزار جوان اپنی جا نوں سے ہاتھ دھو بیٹھے یہاں اخلاقی اقدار، تعلیم سب کو تباہ و برباد کردیا گیا ان سب کے باوجود اس شہرکو کچھ حاصل نہ ہوسکا‘ شاید ایم کیو ایم کو بنانے والے نادم ہوں ان کے اس عمل سے شہر کا امن امان تباہ ہوگیا‘ اس شہر کے ہزاروں افرا د کی جانیں گئیں‘ جب متحدہ ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور اس کی قیادت ملک دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنے لگی تو اسٹیبلشمنٹ کو اسے لگام دینے کا خیال آیا اور متحدہ کے سیکٹر آفسوں کو تالے لگائے جانے لگے۔ منعم ظفر کا مزید کہنا تھاکہ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب کوئی تنظیم وجود میں لائی جاتی ہے تو اس کو کبھی ضرورت کے مطابق کمزور تو کیا جاتا ہے مگر اس کا وجود برقرار رکھا جاتا ہے‘ متحدہ کو لانے والے وقت پڑنے پر اس کو دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں بہرحال ایم کیو ایم کمزور پڑی ہے اور ا س کے خلاف اٹھنے والی آوازیں موثر ہو رہی ہیں اور کہا جاسکتا ہے کہ کراچی ایم کیو ایم کے چنگل سے آزاد ہو رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے بزرگ سیاسی رہنما پروفیسر نبی داد خان (این ڈی خان) نے کہا کہ کراچی کے شہریوں نے متحدہ قومی موومنٹ کو مسترد کر دیا ہے اور این اے 249 میں متحدہ کو ملنے والے چندہزار ووٹ اسی فیصلے کی عکاسی کرتے ہیں‘ ایم کیوایم متواتر شراکت اقتدار کے باوجود 30 برس میں عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکی‘ متحدہ کو کئی مواقع ملے مگر یہ لوگ حقیقی عوامی مسائل سے لاتعلق ہوکر تشدد کی راہ پر چل نکلے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا ان کو غیر سیاسی قوتوں اور سیاسی ایکٹروں نے استعمال کرنا شروع کردیا‘ اب ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے بات کی جا رہی ہے کہ الطاف حسین کو پاکستان لایا جا رہا ہے تاکہ متحدہ کو دوبارہ طاقت مل سکے تاہم اس کا معروضی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ الطاف حسین کا ماضی ان کے راستے کی رکاوٹ ہے ان کے ملک دشمن بیانات کے بعد پاکستان کی زمین ان پر تنگ کردی گئی ہے۔ رشید احمد کا کہنا تھاکہ ایم کیو ایم نے پہلی بار 1988ء کے انتخابات میں حصہ لیا جس میں اس نے قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر کامیابی حاصل کی‘ ایم کیو ایم نے سندھ کے شہری علاقوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہوئے 2013ء تک قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹوں پر کامیابی کے تسلسل کو برقرار رکھا اور کامیابی کا وہ سلسلہ 30 سال تک جاری رہا لیکن یہ جماعت 2018ء میں 6 سیٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی‘ مستقبل میں کراچی کے شہری متحدہ قومی موومنٹ کو مکمل طور پر مسترد کردیں گے‘ متعدد بار حکومتوں کا اہم حصہ رہنے کے باوجود شہری مسائل میں مسلسل اضافے پر شہری متحدہ سے متنفر ہوچکے ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر بھی پر عملدرآمد نہ ہوسکا‘ متحدہ حسب سابق عوامی مسائل سے لاتعلق رہی‘ عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے وقت ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ جب وہ دبائو ڈال کر اپنے کسی ایک مطالبے کو منوا سکتی تھی مگر یہاں بھی ایم کیو ایم نے اپنے ووٹر کو مایوس کیا۔ سہیل احمد کا مزید کہنا تھا کہ سیکٹر اور یونٹ آفسز کھولنے اور لاپتا افراد کی بازیابی تو دور کی بات ہے وہ تو وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اعلان شدہ کراچی پیکج پر عملدرآمد، حیدرآباد یونیورسٹی کے قیام اور مردم شماری کے نتائج کی درستگی کرانے میں بھی ناکام رہی‘ اس ساری صورتحال میں یہ بات بالکل واضح نظر آ رہی کہ اب کراچی اور حیدرآباد کے شہری کسی طور پر متحدہ کو آئندہ کسی بھی سطح پر ہونے والے انتخابات میں ووٹ نہیں دیں گے ۔