روزے کے طبی پہلو

393

دنیا میں 900 ملین مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ان کی اکثریت بڑی عقیدت، پابندی اور نہایت احترام و اہتمام سے روزے رکھتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو اسلامی روزے کا اعلیٰ و ارفع مقصد پرہیز گاری اور تقویٰ ہے۔ ماہ رمضان کے 30 دنوں کے ہر ہر لمحے میں ہر ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا کرتا ہے، قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔ روزے رکھے جاتے ہیں۔ اس ماہ مبارک میں نہ کوئی لغو بات منہ سے ادا کی جاتی ہے نہ سنی جاتی ہے۔ آنکھوں، کانوں، ہاتھوں، پیروں یہاں تک کہ قوائے عقلیہ کو صرف پرہیزگاری کے کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جسم کی کثافت دور کر کے نظافت اور پاکیزگی اختیار کی جاتی ہے۔ اپنی سوچ کو پاک رکھا جاتا ہے۔ اپنی فکر کو آلودہ ہونے سے بچایا جاتا ہے۔
طبی پہلو: غذا کے بارے میں ایک طبی نکتہ یہ ہے کہ ہر غذا استعمال کے بعد نشاستوں میں تبدیل ہو کر بالآخر وہ شکر بن جاتی ہے۔ اس شکر (گلوکوز) سے فوری طور پر توانائی حاصل ہوتی ہے۔ ضرورت سے زائد نشاستے اور شکر چربی کی صورت میں عضلات میں اور گلائیکوجن کی صورت میں جگر میں ذخیرہ ہو جاتے ہیں۔
جب آدمی روزہ رکھتا ہے اور از سحر تا مغرب بھوکا پیاسا رہتا ہے تو نشاستے بدن میں کم ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں بدن از خود جگر سے گلائیکوجن لے کر توانائی کے لیے گلوکوز فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح چربیلی بافتوں سے ذخیرہ شدہ چربی لے کر توانائی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔
اس طرح اگر غور کیا جائے تو روزہ نظامِ ہضم میں نیز مرکزی عصبی نظام میں خوشگوار فعلیاتی سکون لاتا ہے اور استحالہ ٔ غذا میں اعتدال پیدا کرتا ہے۔
اسلامی روزے کے سائنسی مطالعات: ایک مطالعہ یونی ورسٹی اسپتال عمان (اردن) ڈاکٹر سلیمان کی رپورٹ کے مطابق اس میں 42 مرد اور 26 خواتین شامل تھیں۔ یہ سب کے سب صحت مند تھے۔ مردوں کی عمریں 15 سے 64 برس اور خواتین کی عمریں 16 سے 28 برس تھیں۔ ان کے وزن اور تمام اہم ٹیسٹ کر کے محفوظ کر لیے گئے۔ رمضان کے اختتام پر پھر ان کے وزن اور تمام اہم ٹیسٹ کیے گئے۔ مردوں کے وزن میں 6 سے 7 کلو اور خواتین کے وزن میں 4 سے 5 کلو کمی ہوئی۔ ٹیسٹوں میں کوئی ایسی تبدیلی نظر نہیں آئی جو کسی خاص اہمیت کی حامل ہو۔
ایک اور مطالعہ میڈیکل سائنسز یونی ورسٹی تہران میں ہوا۔ اس مطالعے میں ڈاکٹر ایف۔ عزیزی اور ان کے رفقا شریک تھے۔ انہوں نے رمضان شروع ہونے سے پہلے اور دسویں، بیسویں اور تیسویں رمضان کو وزن اور تمام اہم ٹیسٹ لیے۔
ان کے مطابق وزن اوسطاً 9 کلو کم ہوا۔ 17 گھنٹوں کے 29 روزوں میں تولیدی ہارمونوں، ہائپوتھلیمس، پٹیوٹری، تھائرائڈ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
ان دو مطالعات سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ نظامِ جسمِ انسانی پر طبی لحاظ سے روزے کے کوئی مضر اثرات پیدا نہیں ہوتے بلکہ وزن کی کمی اور چربی کے استحالے سے متعلق مفیدِ صحت اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
روزے میں غذائیت کی کمی کا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ ماہ رمضان میں غذائوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ نہ کوئی خاص غذا مقرر ہے۔ ہاں، روحِ روزہ تقلیل ِ غذا کی دعوت دیتی ہے۔ اس لیے کہ تقلیلِ غذا عبادت کے لیے انسان کو تیار کرتی ہے۔ رمضان میں رات کو تراویح کی نماز عضلات اور جوڑوں کے لیے ہلکی ورزش کا درجہ رکھتی ہے۔ اس میں 200 کیلوریاں صرف ہوتی ہیں۔ انسان کے لیے روزے خود پر قابو پانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ سگریٹ نوش اور وہ لوگ جو ہر وقت کچھ کھاتے رہتے ہیں ، اپنی عادت پر قابو پاسکتے ہیں۔ روزے سے اطمینان و سکون قلب ملتا ہے جو صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
پاکستانیوں کا روزہ: اکثر پاکستانی ماہ رمضان میں افطار، عشا اور سحر میں دہی بڑے، پکوڑے، پھلکیاں، بریانیاں، قورمے، پراٹھے، پلائو، چٹنیاں، اچار، جلیبیاں، کھجلے پھینیاں، کباب، شامی کباب ان کھانوں کے رسیا بن جاتے ہیں۔ طبی اعتبار سے اور روح روزہ کے لحاظ سے یہ غذائیں یقینا صحیح نہیں ہیں۔
روح روزہ: اندرون از طعام خالی دار تانورِ معرفت بینی!
تقلیل غذا: غربا و فقرا کا خیال کریں۔ وطن کے مسائل کو پیش نظر رکھیں۔ اربوں کھربوں روپے کے کھانے کے سامان ملک سے باہر آخر کب تک منگواتے رہیں گے؟
روح روزہ و رمضان تو یہ ہے کہ انسان کھانوں سے دل کو ہٹائے اور روح اور جسم کی ساری توانائیاں عبادات پر صرف کرے۔