ٹی وی پر رمضان نشریات کے نام پر گیم شو اور اشتہارات سے رمضان کا تقدس پامال ہورہا ہے

545

کراچی(رپورٹ:حماد حسین) ٹی وی چینلرز پر رمضان المبارک کو کمرشلائز کرنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،سحر وافطار کے دوران ٹی وی پروگرام وہ افراد کر رہے ہوتے ہیںجن کو نہ تو قرآن مجید پڑھنے کا سلیقہ ہے اور نہ احادیث کا،پروگرام ترتیب دینے والوں میں سے بعض کا مقصد بھی صرف پیسے کا حصول ہی ہو تا ہے نہ کہ لوگوں کو رمضان المبارک کے فیض و برکات بتانا،نشریات نے روزہ افطار کرانے کے ثواب سے ہی نہیں باہمی محبت اور ہمدردی سے بھی محروم کردیا،ان نشریات نے معاشرے میں اشیاکی محبت اور صارفیت میں بے انتہا اضافہ کردیا ،رمضان میں اداکاروں اور دین سے نابلد لوگوں سے دینی موضوعات پر پروگرام کروا کر ماہ صیام کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار دارالشفا فاونڈیشن کی چیف آپریٹنگ آفیسر سیما نظیر ،سابق ڈین سوشل سائنسز جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری ،وفاقی اردویونیورسٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہ اسلامک اسٹیڈیز کی سابق ڈین پروفیسر ڈاکٹر رابعہ مدنی ،جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے شعبہ اسلامی تعلیم کی چیئرپرسن پروفیسر ثریا قمر، کالم نگاراور کتاب کے مصنف خالد دانش اور رفاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیا سائنسز کے استاد ڈاکٹر نعمان انصاری نے کیا۔سیما نظیر کا کہناتھا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے ،خصوصی طور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں اور ایشوزپر حکومت نوٹس لیتی ہے ،گزشتہ دہائی میں چینلز کی نجکاری کی وجہ سے الیکٹرونک میڈیا کا اثرو رسوخ معاشرے میں بہت بڑھ گیا ہے چینلز کی بھرمار نے دیکھنے والوں کے اوقات اور ذہنی سوچ پر بہت تیزی سے اثر انداز ہونا شروع کردیا۔جو کلچر رہن سہن ہمیں پردہ پر نظر آیا اسی کا چلتاپھرتا عکس ہمیں گلیوں اور بازاروں میں نظرکررہے ہیں۔چینلز اب مغربی رہن سہن، ان کا طرز زندگی اور کلچر کے ملغومے میں وہ کہانیاں پیش کر رہا ہے جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہی نہیں ۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر بے حیائی اور مغرب زدہ طوفان بدتمیزی پیش کیا جا رہا ہے ۔چند سالوں سے سحر اور افطار کے اوقات میںگیم شوز اور انعامی مقابلوں کے نام پر جو پروگرامات اور اشتہارات پیش کیے جا رہی ہیں اس پر علما اور پڑھے لکھے طبقے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی اس بات پر بے چینی پائی جاتی ہے ۔ میڈیا کا مقصد خبر کی فراہمی،تفریح، تعلیم اور معلومات کی فراہمی ہے لیکن گیم شوز کے نام پر جو غیر معیاری تفریح عوام کو دی جارہی ہے ۔اس پر خود میڈیا کے ذمے داران اور حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔رمضان مسلمانوں کے لیے ایک اہم اورمقدس مہینہ ہے مگر اداکاروں اور دین سے نابلد لوگوں سے دینی موضوعات پر پروگرام کروا کر اس مہینے کا تقدس پامال کیا جا رہے ہے جس پر عوام اور ارباب اختیار کودونوں کو اپنے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔پروفیسر ڈاکٹر احمد قادری کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک میں اکثر افراد جو پروگرام کر رہے ہوتے ہیں ان کو نہ تو قرآن کریم پڑھنے کا سلیقہ ہے اور نہ احادیث کا۔رمضان المبارک کا پروگرام ترتیب دینے والوں میں سے بعض کا مقصد بھی صرف پیسے کا حصول ہی ہو تا ہے نہ کہ لوگوں کو رمضان المبارک کی برکات بتانا۔رمضان کے پروگرام کرنے والے اکثر افراد کا مطالعہ کم ہونے کی وجہ سے وہ سطحی باتیں ہی کرتے ہیں اور جب شوبز کے افراد رمضان المبارک کے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں تو ناظرین اس کو مذہبی تناظر میں نہیں لیتے بلکہ ان کے ذہن میں ان افرا د کا وہی تصور ہوتا ہے جو کردار انہوں نے کسی ڈرامے یا فلم میں ادا کیا تھا ، اس میزبان کی باتوں سے زیادہ اس کی ظاہری چیزوں جس میں کپڑے اور دیگر چیزیں شامل ہیں سے ہی متاثر ہورہے ہوتے ہیں ۔اس لیے میں یہ کہوں گا کہ اللہ نے یہ مختصر زندگی دی ہے لہٰذا اس مختصر زندگی کو کمرشلائز کرنے کے بجائے روحانی زندگی میں بدلنا چاہیے تاکہ ہم اس مبارک مہینے کا مقام جان کر اس کے فیوض وبرکات سے عملاً مستفید ہو سکیں۔پروفیسر ڈاکٹر رابعہ مدنی کاکہنا تھا کہ چینلرز پر رمضان المبارک کو کمرشلائز کرنے سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رمضان میں اسلام پر عملی طور پر عمل ہونا چاہیے۔ایک مسلم گھرانامقدس مہینے کے آنے سے قبل تیاریاں شروع کردیتا ہے کہ ہمارا زیادہ تر وقت دنیاداری کے بجائے عبادت میں گزرے کیونکہ یہ وہ مقدس مہینہ ہے کہ جس میں ایک نیکی کا 70 گنا زیادہ ثواب ہے۔ اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہم اذان بھی ٹی وی پر دیکھتے ہیں ۔اس وقت چینلز پر بیٹھے بہترین اداکار تو ہو سکتے ہیں لیکن عالم دین نہیں۔برادر اسلامی ملک کے ڈرامے ارتغرل غازی دیکھنے کے باعث بچیوں میں سر پر دوپٹہ اور پردے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔ اس ڈرامے کی بدولت ہمارے بچوں کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ ایک مسلم معاشرہ کیسا ہوتا ہے ۔میڈیا کو چاہیے رمضان کو مثال بنانے کے لیے ایسی شخصیات اور علما کو بلائے تاکہ وہ رمضان کو اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب دیں ۔رمضان تذکیہ نفس کا مہینہ ہے۔ پروگرام میں حج اور عمرے کے ٹکٹ کے نام سیکڑوں خواتین اور مرد کو بلایا جاتا ہے۔ مگر ملتا صرف 3 کو ہے باقی واپس جاتے ہیں جبکہ جو میزبان ہوتا ہے اس کا دینیات کے حوالے سے کوئی مطالعہ ہی نہیں ہوتا۔ رمضان المبارک کو کمرشلائز کرنا افسوناک ہے ۔خالد دانش کا کہناتھااکہ ہم مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانیوں کی بدقسمتی کا اندازہ لگائیں کہ رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں ہمارے ٹی وی چینلز کو سند یافتہ علما اور مستند اہل علم نہیں ملتے جو اس ماہ مبارک کے فیض و برکات ، قرآن و حدیث اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی معطر زندگی کو اصل صحت کے ساتھ مسلمانوں تک پہنچائیں تاکہ خیر کی ترسیل آسان ہوجائے۔ڈاکٹر نعمان انصاری کا کہنا تھا کہ جو لوگ 90کی دہائی میں بڑے ہوئے تھے ان کو یاد ہوگا کہ ان کے والدین اور امام مسجد رمضان کہ بارے میں سکھایا کرتے تھے کہ رمضان ایثار وقربانی، سادگی، شائستگی اور صدقہ وخیرات کرنے کا مہینہ ہوتا ہے۔اب آپ کو یہ سب کچھ بھلا دینا چاہیے کیونکہ ہمارے ٹی وی چینلز کی رمضان نشریات ہمیں سکھا رہی ہیں کہ رمضان کا مہینہ انعامات جیتنے یا کھیل تماشوں میں وقت گزارنے کا مہینہ ہے ۔نئی نسل رمضان نشریات میں سج دھج کر آئے اداکاروں کو دیکھ کر صرف ان جیسا بننے کی خواہش کرنے لگتی ہے۔ ایک اور منفی اثر ان نشریات کا یہ ہو رہا ہے کہ سحری افظار میں گھر کی خواتین جواہتمام کیا کرتی تھیں اب اس کی جگہ ، رمضان نشریات کے دوران چلنے والے وہ اشتہارات جس میں بازار کے پکے پکائے کھانوں کی طرف راغب کیا جاتا ہے ۔