رمضان کے فضائل

345

حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرمؐ خطبے کے لیے تشریف لائے، اپنی مسجد کے منبر پر تشریف فرما ہونے کے لیے آپؐ نے جب منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ دوسری سیڑھی پر قدم رنجہ فرمایا تو آپؐ نے فرمایا: آمین۔ تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ لوگوں کے کانوں نے آپؐ سے تین بار آمین سنا، اس کے بعد آپؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا۔ لوگوں کو جو وعظ و نصیحت کرنی تھی اس سے آگاہ فرمایا ۔
جب آپؐ منبر سے اتر کر نیچے تشریف لائے تو قدرے تجسس کے ساتھ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ آج ایک بالکل انوکھی سی بات ہمارے کانوں میں پڑی اور آنکھوں کے سامنے سے گزری کہ آپؐ نے تین بار آمین فرمایا اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اور اس کے بعد ہمارے کانوں نے کچھ نہیں سنا کہ آپؐ کس بات پر آمین فرمارہے تھے۔ کیا واقعہ پیش آیا۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تھے، جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہلاک ہوجائے برباد ہوجائے وہ شخص جو اپنے بوڑھے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو اپنی زندگی میں پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکے تو بلاشبہ اس کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ میں نے اس پر آمین کہا۔ جب میں دوسری سیڑھی پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص کہ جس کے سامنے نبی اکرمؐ کا نام نامی اسم گرامی لیا جائے اور وہ پھر بھی آپؐ پر درود نہ بھیجے۔ آپؐ نے فرمایا: میں نے آمین کہا۔ تاوقتیکہ آپؐ نے تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ہلاک ہو جائے، برباد ہوجائے وہ شخص جو رمضان کی برکتوں اور رحمتوں والا مہینہ پائے اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہو سکے۔
جس مہینے کا ہر لمحہ برکت، رحمت اور مغفرت کا ہے، جس میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں فراخ اور کشادہ ہو جاتے ہیں، ان میں داخلے کی سہولت مل جاتی ہے تو پھر بھی بخشش نہ کروا سکنا حیران کن ہے۔ بہت سے لوگ اس حدیث کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل امینؑ بدعا کر رہے ہیں اور نبی اکرمؐ اس کی تصدیق فرما رہے ہیں۔ اس پر گرہ لگا رہے ہیں اور آمین کہہ کر اس بدعا کا ساتھ دے رہے ہیں، حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔
جب کیفیت یہ ہو کہ چاروں طرف بہار کا سماں ہو، ہر طرف گل و گلزار کی محفلیں آباد ہوں، ہر جانب صورت یہ ہو کہ پتھر بھی برگ و بار لا رہے ہوں، چٹانوں سے بھی سبزہ ابل رہا ہو۔ ہر طرف مہک اور خوشبو موجود ہو۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں گرا پڑا بیج بھی برگ و بار لا رہا ہو۔ اگر کوئی بیج اس موسم میں بھی برگ و بار لانے سے رہ جائے تو اس کی بدنصیبی پر کسی بددعا کی تو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اس کی ہلاکت تو عرش کے پائے کے اوپر لکھی ہوئی ہے۔ اس کی بربادی کے افسانے تو چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں، دراصل اس حدیث کے اندر ایک تنبیہ اور یاددہانی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اندر رمضان المبارک کی برکتوں کا تذکرہ ہے کہ اس میں گیا گزرا اور چاروں طرف سے گناہوں کے اندر ڈوبا ہوا، شب و روز اسی ماتم کے اندر گرفتار اور اپنے سراپا وجود کے اعتبار سے نافرمانی اور نسیان میں گھرا ہوا انسان بھی، اس ماہ مبارک کی برکتوں رحمتوں، بخششوں اور جنتوں کے دروازے کھل جانے سے، شیاطین کے مقید ہو جانے سے بھی استفادہ نہ کرے اور اپنی طبیعت اور مزاج کے اندر وہ کیفیت پیدا نہ کر ے جو مطلوب ہے، وہ طلب اور جستجو پیدا نہ کرے تو اس کے لیے ہلاکت کے علاوہ کون سا لفظ استعمال کیا جائے، اس لیے یہ مسئلہ کسی کے لیے بددعا کا نہیں ہے، مسئلہ انسانوں کے کردار ان کے افعال اور شب و روز کے معمولات اور زندگی گزارنے کی انہوں نے جو ڈگر اپنائی ہوئی ہے اس کو کوسنے کا اور اس جانب متوجہ کرنے کا ہے…!
ہر طرف یہ صدائیں ہیں کہ کوئی ہے جنت کا طلبگار جسے جنتوں میں داخل کر دیا جائے؟ کوئی ہے مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہوں کو دھوکر اسے مغفرت کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائے؟ کوئی ہے کہ جس نے طاغوت کی فرمانروائی کے لیے خود کو مختص کیا ہوا تھا اور اپنے اعمال کو نیکیوں سے کہیں دور لے جاکر آباد کیا ہوا تھا؟ کوئی ہے جو از سر نو لوٹنے اور پلٹنے والا ہو۔ اپنے رب کی بارگاہ میں صدق دل سے توبہ واستغفار کرنے والا ہو۔ اس کے دربار میں اپنی پیشانی کو جھکانے والا ہو اور اپنے دل و دماغ کی دنیا میں اپنے رب کی بندگی کا حوالہ مضبوط سے مضبوط تر کرنے والا ہو۔ یعنی رحمت، بخشش اور مغفرت کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ ہر نیکی کا حصول آسان بنا کر اس کا اجر کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
نبی اکرمؐ نے شعبان کی آخری صحابہؓ کو مسجد نبوی میں جمع فرمایا، انہیں اپنی خدمت میں حاضری کا موقع دیا اور وہ طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس کے ہر لفظ کی تشریح کی جائے تو بھی اس کی تفسیر بیان نہیں ہو سکتی اور ہر لفظ اپنی جگہ معنی و مفہوم کا طالب رہتا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک نہایت ہی برکت وعزت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، جس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ دلوں کو متوجہ کرنے اور رب سے تعلق جوڑنے کا لمحہ ہے۔ رحمتوں کی بارش ہو رہی ہے مغفرتوں کے حوالے مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا کہ یہ صبر کا مہینہ ہے۔ زندگی کے تمام دائروں میں صبر کی تربیت دینے اور صبر کی کیفیت سے سرشار ہونے کے لیے، صبر کی خصوصیات اور صفات سے متصف ہونے کے لیے رمضان المبارک کے جو لمحات اس جانب رہنمائی کرتے ہیں کہ صبر کی کیفیت سے جو سرشار اور مالا مال ہو جاتے ہیں وہ دیگر مراحل سے بآسانی گزر جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ صبر کا صلہ جنت ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اس ماہ مبارک کے دن کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ راتوں کو جاگنے کی اگرچہ فرضیت کا اعلان نہیں کیا گیا مگر اس کی اہمیت اور برکت کا اس خطبے میں واضع اعلان ہے۔ راتوں کو جاگنا تو ویسے بھی افضل ہے، مگر رمضان کی راتوں کو جاگنے کی فضیلت تو بے حد وحساب ہے۔ آپؐ نے اس کی خصوصی اہمیت وکیفیت سے لوگوں کو آگاہ کیا اور اس میں قرآن پاک سے جڑنے، قرآن پاک کا ہوجانے، قرآن پاک ہی کو اپنی زندگی کا مرکز ومحور بنانے، اسی کو اول وآخر قرار دینے، اس کو سینے سے چمٹا کر اپنے سینے کے اندر محفوظ کر لینے اور اس کے نتیجے میں بالآخر اپنے اعمال کو اس کے رنگ میں رنگ کر مزین کرلینے کی طرف آپؐ نے بار بار توجہ دلائی۔
صیام رمضان کے ساتھ قیام رمضان یہی رمضان کی راتوں کا قیام ہے۔ انہی راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر بھی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے، یعنی قریباً 84 سال کی دن رات کی عبادت سے بہتر! جو ایک انسان کی زندگی بھر بلکہ عام زندگی سے بھی دس بیس سال زیادہ بنتی ہے کی عبادت ہے جو صرف ایک رات کی عبادت سے حاصل ہوسکتی ہے۔ دن کے روزے اور رات کا قرآن، پورے قرآن پاک کو نماز تراویح میں سننا۔ اسی خطبے میں آپؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس ماہ مبارک میں نفل کی ادائیگی پر فرض کا ثواب اور فرض کے اجر کو سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان ہمدردی وغم خواری کا مہینہ ہے، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بے بسوں اور ناکسوں کی دلجوئی، سب کو اپنا بنانے اور ہر ایک کے دکھوں مصیبتوں پریشانیوں کو مل کر دور کرنے کا موسم ہے۔
اس ماہ رمضان میں ایک بار پھر ہمیں اس عہد کو زندہ و تابندہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ستائسویں رمضان المبارک کو اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو خطہ زمین نعمت کے طور پر عطا فرمایا تھا، ہم پاکستان کو اس کے حصول کے مقصد تک پہنچا کر دم لیں گے اور اس سلسلے میں پیش آمدہ مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک میں نفاذ اسلام کے ایجنڈے کی طرف آگے بڑھتے رہیں گے۔