روزے کے چند ضروری مسائل

288

.(8)روزے کی حالت میں خوشبو استعمال کرسکتے ہیں، ناخن کاٹ سکتے ہیں، بالوں کو تیل لگا سکتے ہیں، اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
(9)دَمے کا مریض جو آلۂ تَنَفُّس (Inhaler) کے استعمال کے بغیر دن نہیں گزار سکتا، وہ معذور ہے اور اس کو اس بیماری کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، اگر یہ مرض دائمی ہے، تو وہ فدیہ ادا کرے۔ اگر روزہ رکھ لیا ہے اور مرض کی شدّت کی بنا پر انہیلر استعمال کیا، تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو بعد میں قضا کرے، ورنہ فدیہ ادا کرے۔ انہیلر میں اگرچہ گیس ہوتی ہے اور ہوا حلق میں جاتی بھی رہتی ہے اور خارج بھی ہوتی ہے، آکسیجن پر تو زندگی کا مدار ہے، لیکن انہیلر میں آکسیجن کے ساتھ ایک کیمیکل بھی ہوتا ہے، جو حلق کے راستے معدے تک پہنچ سکتا ہے، کیونکہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
(10)انتہائی درجے کے ذیابیطس کے مریض یا ایسے تمام اَمراض میں مبتلا مریض جن کو خوفِ خدا رکھنے والا کوئی دین دار ماہر ڈاکٹر مشورہ دے کہ وقفے وقفے سے دوا استعمال کرو یا پانی پیو یا خوراک استعمال کرو، ورنہ مرض بے قابو ہوجائے گا یا کسی عضو یا جان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہے، تو ایسے تمام لوگ شرعی معذور ہیں، اُنہیں شریعت نے رخصت دی ہے کہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ ادا کریں، ایسے لوگ ’’دائمی مریض‘‘ کہلاتے ہیں۔ لیکن اگر فدیہ ادا کردیا ہے اور بعد میں اللہ نے اپنے فضل وکرم سے اُس بیماری سے صحت عطا کردی، تو قضا بھی کرے، فدیہ میں دیے ہوئے مال کا ثواب اُسے مل جائے گا ۔
(11)قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کا دو وقت کا کھانا مقرر کیا ہے، ہر روزے دار اپنے معیار اور مالی استطاعت کے مطابق فدیہ ادا کرے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’سو جو شخص خوش دلی کے ساتھ فدیے کی مُقررہ مقدار سے زیادہ ادا کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے‘‘۔ (البقرہ: 184)
(12)اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک میں مسافر یا عارضی مریض کو عذر کی بنا پر روزہ چھوڑنے کی رخصت دی ہے، لیکن یہ بھی فرمایا: ’’اور اگر تم روزہ رکھ لو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو‘‘۔ (البقرہ: 184) حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: میں سفر میں روزہ رکھتا ہوں اور وہ کثرت سے روزہ رکھنے والے تھے، آپؐ نے فرمایا: ’’تمہیں اختیار ہے چاہو تو روزہ رکھو اور چاہو تو چھوڑ دو‘‘۔ (بخاری: 1943) مسافر یا عارضی مریض فدیہ دے کر روزے کی فرضیت سے عہدہ بر آ نہیں ہوں گے، بلکہ اُنہیں رمضان المبارک کے بعد صحت یاب ہونے پر عذر کی بنا پر چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرنی ہوگی ۔
(13)روزہ رکھنے کی صورت میں حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کی اپنی یا بچے کی صحت کے بگڑنے کا ظنِّ غالب ہو تو وہ رمضان کا روزہ چھوڑ سکتی ہے، لیکن اِس کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی بلکہ بعد میں قضا روزے رکھنے ہوں گے۔ اِسی طرح ایامِ مخصوص کے دوران عورت روزہ نہیں رکھ سکتی، ایام ختم ہونے پر غُسلِ واجب کرکے پاک ہوجائے اور روزے رکھے، جتنے دنوں کے روزے چھوٹ گئے ہیں، اُن کی تلافی فدیے سے نہیں ہوگی، بلکہ بعد میں اتنے دنوں کے قضا روزے رکھنے ہوں گے ۔