در امید کے گداگر

409

کچھ لوگ اسے دنیا کا دوسرا قدیم ترین پیشہ کہتے ہیں۔ خیرات کرنے اور عطیہ دہندگان کے لیے یہ اچھا، نیک، خدمت خلق اور ثواب کمانے کا کام ہے۔ جس سے وہ اطمینان اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ خیرات اور بھیک وصول کرنے والوں کے لیے یہ ضرورت، پیشہ یا مجبوری ہوسکتی ہے۔ پھر ایسے گروہ، پولیس، پیشہ ور اور بردہ فروش موجود ہیں جن کے اپنے مخصوص علاقے اورکمائی کے طے شدہ اڈے ہیں۔ بھیک مانگنا ایک بہت ہی کامیاب کاروباری ماڈل ہے، جو تمام اسٹیک ہولڈرز کو جیت کا احساس دلاتا ہے۔
بھیک مانگنے کا تعلق غربت سے کم اور ریاست کی معاشی پالیسیوں اور عوام کی بھلائی کے منصوبوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا ہے کہ ریاست اپنے فنڈز کا انتظام کرتی رہے اور اپنے لوگوں کی دیکھ بھال پر خرچ کرتی رہے۔ کیا کوئی قوم، جو خود مستقل طور پر قرضوں اور گرانٹ کے حصول کے لیے سرگرداں اور ہاتھ پھیلائے ہوئے ہو اپنی گلیوں کے بھکاریوں کے لیے واقعی فکر مند ہو سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کا 115.7 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضوں میں جکڑا ہونا، اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے حکمران بھیک مانگنے کو اپنے طرز زندگی کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔
اگرچہ ہمارا اجتماعی ضمیر غیر ملکوں سے بھیک مانگنے پر خاموشی کی چادر اوڑھے سوئے ہوئے ہے، لیکن جب ہمارے گلی محلوں اور سڑکوں کی بات آتی ہے تو وہ فوری طور پر بیدار ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ معذور، محتاج افراد، بے گھر بچوں اور منشیات کے عادی افراد، جرم، افسوس، تقویٰ، صدقہ اور غصے کا کوئی مرکب ہو۔ اس تکلیف دہ مشق میں شامل ایک اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ بچے ایسے ہیں جو سڑکوں پر رہتے اور بھیک مانگتے ہیں، جو جنسی استیصال، جرم اور منشیات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
پاکستان میں 1958ء سے انسداد گداگری کا ایکٹ موجود ہے، جس میں کسی عوامی مقام پر بھیک مانگنے یا کسی بھی بد نمائی کی نمائش کرکے بھیک مانگنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جسے دکھا کر وہ خیرات مانگ سکے۔ یہ قانون ریاستی مشینری کی عدم دلچسپی اور مددگار اداروں پناہ گاہوں اور عمل کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر موثر رہا۔ لہٰذا، ہمیں تیزی سے نت نئے قوانین بنانے کے بجائے، اس موضوع پر نظرثانی کرنے اور بھکاریوں کی بحالی اور بھیک منگوانے والے گروہوں کو پکڑنے کے انسانی طریقوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
گداگری کے خلاف مہم کو صرف اس وقت شروع ہونا چاہیے جب درج ذیل میکانزم عمل میں لایا گیا ہو: (الف) کہ پولیس کو پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی بھیک مانگنے والے کو سڑکوں اور چو راہوں سے ہٹائے۔ (ب) کہ ایسے افراد کو تھانے لے جاکر بھیک منگوانے والے افراد اور گروہوں کے بارے میں معلومات اکھٹی جائیں۔ اور حقائق کی تلاش، ریکارڈ اور بائیو میٹرکس کے بعد انہیں بحالی کے مراکز پر بھیج دیا جائے۔ (ج) 18 سال سے کم عمر بچوں کو بچوں کی بحالی مرکز اور بالغوں کو بالغوں کی بحالی مراکز میں لے جایاجائے۔ جہاں وہ ابتدائی طور پر تین ماہ کی مدت کے لیے رکھے جاتے ہیں۔ (د) پولیس بیک وقت بھیک منگوانے والوں کو گرفتار کرنا شروع کرے اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا آغاز کرے۔ (ر) تین ماہ بعد سڑکوں پر واپس نہ آنے کی تحریری یقین دہانیوں کے ساتھ بچوں کو والدین کے حوالے کیا جائے اور بڑوں کو رہا کیا جاسکتا ہے۔
تربیت یافتہ عملہ اور ہر صوبے میں بالغوں اور بچوں کے لیے مناسب بحالی مراکز کے بغیر بھکاری کے خاتمے کا پروگرام موثر نہیں ہوسکتا۔ ریاست کو ان مراکز میں کھانا، رہائش، کپڑے، جسمانی اور نفسیاتی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، اور ہنر سیکھنے کی سہولت دینا ہوگی۔ مراکز کا مقصد اپنے باشندوں کی اصلاح کرنا ہے، جبکہ پولیس کو چاہیے کہ وہ بھیک منگوانے اور منشیات فروخت کرنے والے گروہوں کو ختم کرنے پر توجہ دے۔ اگر وہ شخص پناہ گاہ سے باہر غیر محفوظ ہو یا رہائی کے بعد بھیک مانگنا پھر سے شروع کرسکتا ہو تو تین ماہ کے ابتدائی قیام میں توسیع کی جاسکتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کو پورے پروگرام میں ایک فعال شراکت دار بننا چاہیے۔