موجودہ بحران اور ہماری ذمے داری

477

ہمارا معاشرہ ایک بڑے خطرے سے دوچار ہے۔ یہ اپنے تضادات کے آگے بے بس ہو کر ایک ایسے اندرونی تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے جو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر سکتا ہے۔ طبقاتی تضادات اور طبقاتی کش مکش ہر معاشرے میں ہوتی ہے، بہت ہی اچھی اور متوازن سوسائٹی میں بھی ایک طبقاتی تقسیم ضرور ہوتی ہے جس کی بنیاد پر کبھی اُن طبقات میں تصادم اور کش مکش کی صورت ِ حال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ تصادم اور کش مکش اپنی کیفیت میں کہیں کہیں منفی ہوسکتی ہے لیکن اپنی معنویت میں مثبت ہی ہوتی ہے۔ معاشرے کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کے مختلف طبقات میں تضادات اور اُن کے درمیان ایک کشا کش کا تعلق نہ ہو تو اس کا قیام اور نمو ناممکن ہے۔ تو تصادم یا کش مکش سوسائٹی کے بنیادی حرکیات میں داخل ہے اور اس سے معاشرے کی کلیت یا وحدت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ معاشرہ ایک دائرے کی طرح ہے جس میں آنے والی چیزیں اگر ایک دوسرے سے مختلف ہوں یا ایک دوسرے سے کشاکش کی حالت میں ہوں تو بھی وہ دائرہ ٹوٹتا نہیں ہے۔ اگر سوسائٹی اپنی اصولی وحدت کا دائرہ بنا لینے میں کامیاب ہے تو اس کے اندر موجود تمام طبقات اپنے اختلافات بلکہ تضادات کے باوجود اس دائرے کو توڑنے کا سبب نہیں بنتے بلکہ اس کے پھیلاؤ اور اس کے نمو کے عمل کو جاری رہنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاشرتی وحدت کی تشکیل میں مسلسل ناکام چلے آرہے ہیں۔ ایک نظریاتی وحدت پر خطیبانہ اور شاعرانہ اصرار تو ضرور پایا جاتا ہے لیکن معاشرے کی عملی تشکیل میں وہ بنیادی عنصر سرے سے غائب ہے جسے دیکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ ہمارا معاشرہ بھی تمام تر اختلافات اور تضادات کے باوجود اپنی وحدت کا، اپنی کلیت کا اور اپنی متحرک اجتماعیت کا ایک ایسا دائرہ ہے جس میں تمام طبقات ثابت قدم رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسا معاشرہ پاکستان کے جغرافیے میں کبھی وجود میں نہیں آیا۔ کچھ علاقائی اور قبائلی وحدتیں تو ہمارے اندر نظر آتی ہیں، یعنی سندھی پنجابی وغیرہ کے دائرے تو ہمارے اندر اچھی طرح سے بنے ہوئے ہیں، لیکن یہ تمام دائرے آپس میں مدغم ہو کر ، ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایسا ہمہ گیر دائرہ بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہے جس میں میرا پنجابی ہونا اور آپ کا پٹھان ہونا کوئی خلل نہ پیدا کرے۔ اوپر سے ایک نظریاتی نعرے بازی اور رومانوی جذباتیت نے ہمیں حقیقی معاشرتی اصول اور سماجی ضروریات کی طرف متوجہ ہونے سے بری طرح روک رکھا ہے۔ اور پھر ستم یہ ہے کہ وہ نظریہ بھی جس کے لیے ہم نے اپنی سب سے اونچی آواز کو مخصوص کر رکھا ہے، ہماری زندگی سے کوئی بامعنی اور نتیجہ خیز تعلق نہیں رکھتا۔ ہم اس کے لیے جذباتی تو ہیں، سنجیدہ بالکل بھی نہیں۔ ہم نے خود اسے اپنے لیے اجنبی بنا لیا ہے۔ ہم صرف خواب میں اس کی طرف لپکتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی اس نظریے سے بھاگنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ تو ہمارے نظریے اور ہماری زندگی میں بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ایک رنگین خواب اور سنگین بیداری میں ہوتا ہے۔ ہم نے بالکل لا تعلقی اور ایک طرح کی تماش بینی کے ساتھ خواب کو اپنی بالکل مختلف بیداریوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ نظریہ ہمارا ایسا خواب ہے جس سے ہم اپنی بیداری کو مشروط کرنے کی خالی خولی ضد تو کرتے ہیں لیکن اُسے بیداری پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ کارل مارکس نے مذہب کو افیون کہا تھا، اُس کا یہ قول غلط ہونے کے باوجود ہماری صورت ِ حال پر صادق آتا ہے۔ تو ا س بھیانک جرم میں ریاست ہی نہیں، ہمارے سماجی اور مذہبی ادارے بھی برابر کے شریک ہیں۔
عملی صورت ِ حال یہ ہے کہ ہمارے حکومتی اور معاشرتی ادارے اس طرف سے بالکل غافل رہے کہ ہمارے دین کو معاشرت اور ریاست دونوں کا احاطہ کر لینے والا دائرہ ہونا چاہیے۔ ہر بحران میں اسلام کو ایک پرشور نعرہ بنا کر اس بحران سے نکلنے کی ایک غیر مؤثر اور مصنوعی کوشش تو بہت ہوتی رہی لیکن ایسا کبھی نہ ہوا کہ معاشرے میں اور ریاست میں شکست وریخت کے اسباب ہماری نعرہ زنی سے ختم ہوگئے ہوں۔ مشرقی پاکستان الگ ہورہا تھا تو اسلامی وحدت کا نعرہ اُس علٰیحدگی کو نہ روک سکا، اسی طرح بلوچستان کی صورت ِ حال میں بھی اسلام کا جارحانہ یا واعظانہ واسطہ دینے سے کوئی کام نہیں بن رہا۔ غرض ہمارے معاشرے میں بلکہ ہماری قوم میں تمام طبقاتی اور گروہی امتیازات، محض منفی اور تخریبی امتیازات بن کر رہ گئے ہیں اور کسی وعظ و نصیحت سے حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہمارا مشترکہ دعواے اسلام اور نعرہ ٔ ایمان بھی یہاں کوئی کردار ادار نہیں کر رہا۔ یعنی معاشرے کو اپنے تمام اجزا میں جڑے رہنے کے لیے جتنی ضرورتیں پیش آتی ہیں، ان میں سے کوئی ایک ضرورت بھی ہم نے اپنے دین سے پوری نہیں کی۔ بلکہ اب تو یہ کہا جانے لگا کہ دین ان ضرورتوں کو پورا کرہی نہیں سکتا اور انسانوں کو ایک وحدت میں پروئے رکھنے کی تالیفی قوت کسی دین کے پاس ہو ہی نہیں سکتی۔ معاذ اللہ۔ ہم اس طرح کی باتوں سے لڑتے تو بہت ہیں لیکن ہماری ساری لڑائی ان باتوں کو جھٹلاتی نہیں ہے بلکہ سچ ثابت کر دیتی ہے۔ دین کے بارے میں ہمارا تصور اور اس کی بنیاد پر وجود میں آنے والا عمل، دین کو قوت ِ افتراق کے سوا اور کیا ثابت کر رہا ہے؟ غرض ہم ایک ایسی عجیب وغریب مخلوق بن چکے ہیں جو اپنے دین کو ریاست، حکومت اور معاشرت کا واحد معمار بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ہمارے اندر اس سنجیدگی اور فکر مندی کا فقدان ہے جو دین سے سچی وابستگی اور تاریخ کے گہرے فہم سے پیدا ہوتی ہے۔ سوسائٹی اور اس کے نظامِ حرکیت میں اسلام کو ایک فعال مرکزیت دے کر سماج کی تشکیل ِ نو کا کوئی با معنی اور نتیجہ خیز منصوبہ ہمارے ذہن میں ہے نہ عمل میں۔ اسلامی ریاست اور معاشرے کا تصور تو خیر سے اب رومانویت اور خوابناک آئڈیلزم بن کر رہ گیا ہے، ہم تو سوسائٹی کے فطری اصول و مظاہر سے بھی خالی ہو چکے ہیں۔ اسلامی معاشرہ تو بعد کی بات ہے، ہم انسانی معاشرے کے ضروری دروبست سے بھی محروم ہیں۔
معاشرہ اصل میں انسانوں کا ہوتا ہے جو اگر قلب ِ سلیم ، ذہن ِ مستقیم اور عزم ِ صمیم کے ساتھ کلمہ پڑھ لیں تو وہ معاشرہ اسلامی بن جاتا ہے۔ (یہ قافیہ بندی ، بھائی، محض اتفاقی ہے، کوئی ذاکرانہ چرب زبانی نہیں۔ اس سے بہرحال اتنا تو واضح ہوجاتا ہے کہ المناکی اور غمگینی کی کیفیت میں بھی آدمی کا جمالیاتی شعور اور ذوق بیدار رہتا ہے بلکہ اور زیادہ بیدار ہو جاتا ہے)۔ تو سچی بات یہی ہے، ہم ایک ایسی سوسائٹی ہیں جو مکمل طور پر حیوانی ہے نہ کامل طریق سے انسانی۔ اس تحت ِ انسانی معاشرے کو وجود میں لانے کی ذمے داری کسی ایک طبقے پر نہیں ہے، ہم سب برابر کے ذمے دار ہیں۔ اس نیم انسانی اور نیم حیوانی معاشرے میں ایک دوسرے سے ٹوٹنے کے جذبات وخیالات، ایک دوسرے سے جڑنے کے احساسات اور ضروریات سے کہیں زیادہ قوی ہیں۔ اب ایسے معاشرے میں جو پہلے ہی خودکشی پر تُلا بیٹھا ہے تباہی کا ایک نیا عنصر داخل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے اندر ایک ایسے تضاد نے سر اٹھا لیا ہے جو اگر غالب آگیا تو ہماری جیسی تیسی اجتماعیت بھی برقرار نہ رہ سکے گی۔ اور وہ ہے مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کا جارحانہ اور مخاصمانہ تضاد۔ یہ امیر غریب کا اختلاف نہیں ہے، یہ عالم جاہل کا تضاد نہیں ہے، یہ کمزور اور طاقتور کی تقسیم نہیں ہے، یہ سب تو کوئی معاشرہ بھی سہار سکتا ہے۔ لیکن مسلم اجتماعیت کا مزاج ایسا ہے کہ اگر معاشرے میں دینی وغیر دینی کا عنوان رکھنے والی طبقہ بندی پیدا ہوجائے اور ان دونوں طبقوں میں انتہائی درجے کے تصادم کا بیج پڑ جائے تو مسلم معاشرہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ اس انتہائی بھیانک صورت ِ حال میں ظاہر ہے کہ دنیا کو چلانے والی تمام طاقتیں لا دینیت کی ہر ممکن پشت پناہی کریں گی اور ہم میں اتنی سکت نہیں ہے کہ دنیا کی صورت گری کرنے والی قوتوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ ہمارے پاس بس ایک ہی راستا ہے، اور وہ یہ کہ ایک ایک فرد اپنی ذمے داری کا احساس کرے اور معاشرے کی مثبت تشکیل میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ اور مثبت معاشرہ وہی ہوگا جس پر غیر مسلم بھی رشک کریں اور خود کو اس کا حصہ بنانے کی آرزو کریں۔ تو خیر، ہم میں سے ہر ایک زندگی کے جس جس میدان میں اپنا کوئی اثر رکھتا ہے، اُس پر لازم ہے کہ اس میدان میں ایک مؤثر کردار ادا کرے۔ یہ ایک جنگ ہے جسے بندوقوں سے نہیں جیتا جا سکتا، اس میں غالب رہنے کے لیے اپنی آدمیت میں ترقی کرنی ہوگی اور اپنے دین کو دنیا میں بھی مفید اور با برکت ثابت کرنا ہوگا۔ تو اس جنگ سے لا تعلق اور غافل ہو کر بیٹھے رہے تو یہ ملک بھی سیکولر ہو جائے گا اور یہ سوسائٹی بھی، اور دین بس پس ماندگی کی ایک ڈراؤنی علامت بن کررہ جائے گا۔ اللہ وہ دن نہ دکھائے لیکن اگر آج بھی مذہبی طبقات نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور دینی حمیت کو حکمت اور فراست کے ساتھ بیدار نہ کیا تو اس ملک ہی میں نہیں، سارے عالم ِ اسلام میں دین داری کا مستقبل مخدوش ہے۔ دیکھتے نہیں ہو کہ اب طبقاتی درجہ بندی ایسی ہوتی جارہی ہے کہ جو جتنا دین دار ہوگا، معاشرے میں اتنے ہی پست اور ناپسندیدہ مرتبے کا حامل ہوگا۔ اگر اس حشر سے بچنا ہے اور اپنے ہی معاشرے میں زیرو ہو جانے سے محفوظ رہنا ہے تو اس کے لیے ابھی سے تیاری کرنی ہوگی اور تیاری کو سیاسی جماعتوں اور مذہبی اداروں پر نہیں چھوڑا جا سکتا کیونکہ یہ سب مکمل طور پر بے اثر ہیں۔ تو جناب وہ ذمے داری یہ ہے کہ میں خود کو ایسا مسلمان بناؤں جو دوسروں کے لیے اسلام کو پرکشش بنا دے اور انہیں اس یقین تک پہنچا دے کہ انسانیت کو جس تکمیل کی آرزو ہے، جس کمال کی تمنا ہے وہ اس دین ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یعنی اسلام تکمیلِ انسانیت کا دین ہے۔