نیکی سے امید اور بدی سے مایوسی

241

مولانا قاری محمد طیب
نیکی کرنے سے اْمید پیدا ہوتی ہے، بدی کرنے سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ جو ملازم ہمیشہ نالائقیاں کرتا ہے، اسے مایوسی ہوتی ہے کہ مجھے نہیں ملنا ملانا، بس آقا کی طرف سے جوتیاں پڑیں گی اور جو کام عمدہ کرتا ہے، اسے تمنا رہتی ہے کاش! میرے سے کوئی پوچھے، تو نے کیا کام کیا؟ تاکہ میں بتا سکوں کہ میں نے یہ کیا یہ کیا، مجھے انعام ملے گا، تنخواہ بڑھے گی، مالک کے دل میں میری قدر بڑھے گی تو نیکی کرنے سے اْمیدیں بندھتی ہیں۔ حق تعالیٰ سے ملنے کی آرزو پیدا ہوتی ہے اور بَدی کرنے سے مایوسی پیدا ہوتی ہے، گھٹن پیدا ہوتی ہے۔ اللہ کے سامنے جانے کو جی نہیں چاہتا، نیک آدمی تمنا میں رہتا ہے کہ کب موت آئے اور مجھے بدلے ملیں اور بد آدمی مایوس ہوتا ہے کہ کسی طرح سے موت نہ آئے، اسے مرنا بھی موت ہو جاتا ہے۔
اسی واسطے کفار کے بارے میں فرمایا گیا، چونکہ انہیں مایوسی ہوتی ہے، کیونکہ وہ کفر میں مبتلا ہیں، آخرت کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اس لیے انہیں مرنا بھی بھاری ہے: ’’تم ان کو اس زندگی کے اوپر انتہائی حریص پاؤگے‘‘۔ اگر ان کی عمر پچاس برس کی ہو تو وہ چاہیں گے ساٹھ برس کی ہو جائے، دنیا سے ٹلنے کا نام نہیں لیں گے۔ ’’یہودی اور جو شرک میں مبتلا ہیں وہ اس تمنا میں ہیں کہ کاش! ایک ہزار برس کی عمر مل جائے، وہ مل جائے تو چاہیں گے کہ ایک ہزار کی اور مل جائے، وہ دنیا سے ٹلنا چاہتے ہی نہیں‘‘۔ (بقرہ:96) اس لیے کہ آئندہ انہیں کوئی توقع نہیں، مایوسیاں اور ظلمتیں ان کے سامنے ہیں، مستقبل ان کا تاریک ہے۔
اور نیک آدمی مؤمن تو اس کے بارے میں ہے، دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا: یہود نے کہا تھا ہم اولیاء اللہ ہیں تو فرمایا: ’’اے یہود! اگر تم اولیاء اللہ ہو اور تم اللہ کے دوست ہو تو ذرا موت کی تمنا کرکے دکھلاؤ‘‘۔ (جمعہ :6)
ولی کو تو تمنا ہوتی ہے کہ کب میں اس دنیا کو چھوڑوں اور اپنے پروردگار کے پاس جاؤں۔ تم اگر واقعی ولی ہو تو ذرا موت کی تمنا کرکے دکھلاؤ، حالانکہ تمہاری کیفیت یہ ہے کہ موت کے نام سے تمہیں بخار چڑھتا ہے، تم یہ چاہتے ہو کہ بس دنیا سے کسی طرح ٹلیں ہی نہ اور ایک ولی کامل کہتا ہے کہ یا اللہ! کب وہ دن آئے کہ اس اجڑے دیار کو ہم چھوڑ کر پاک وطن میں پہنچیں گے۔
اس لیے فرمایا کہ مشرکین کو حیات دنیوی پر زیادہ حریص پاؤ گے۔ مطلب یہ ہے کہ جتنی نیکی بڑھتی جائے گی انسان کے لیے مرنا خوش گوار ہوتا جائے گا۔
یہ جو بعض اوقات ہماری کیفیت ہوتی ہے، ذرا سا بیمار ہوئے اورگمان ہوا کہ موت آئی تو بھاگے بھاگے پھر رہے ہیں کہ کچھ کرو، کوئی تعویذ کرو، ایسا نہ ہو کہ ٹل جائیں، مرنا جینا یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے، مگر انسان اتنا گھبرا جائے، خدا جانے کیا ہو جائے گا؟ ایک صالح اور نیک بندے کے لیے تو خوشی کا مقام ہے کہ زندہ ہوں تو روزہ، نماز، طاعت وعبادت وغیرہ کا عمل نصیب ہوگا اور اگر مر گیا تو اللہ کی ملاقات نصیب ہوگی، اس سے بہتر کیا چیز ہوگی، تو زندگی بھی خوشگوار، مرنا بھی خوشگوار۔
جب سیدنا بلالؓ کی وفات کا وقت آیا تو چہرہ کِھلا ہوا ہے، خوشی اور مسرت میں ڈوبے ہوئے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت! نزع کی تکلیف ہو رہی ہے اور خوشی ایسی جیسے معلوم ہوا کہ شادی ہونے والی ہے! فرمایا: عنقریب محمدؐ اور آپ کے صحابہ کرامؓ سے ملاقات ہونے والی ہے‘‘۔ اسی خوشی میں جان دے رہے ہیں کہ اب وقت قریب ہے۔
سیدنا عثمانؓ شہادت کے وقت خوش ہیں، روزے سے ہیں، فرمایا بس عنقریب افطار آپؐ کے ساتھ جاکر کرنا ہے، چند منٹ رہ گئے ہیں۔ یہ کیفیت نیکی اور تقویٰ وطہارت سے پیدا ہوتی ہے کہ موت خوش گوار بن جاتی ہے، بلکہ تمنا پیدا ہو جاتی ہے، بہرحال روز کے روز اگر محاسبہ کر لیا جائے اور اپنی نیکیوں کو شکر کے راستے سے بڑھایا جائے اور بدیوں سے توبہ کے راستے سے ختم کر دیا جائے، تو موت خوشگوار ہو جائے گی، اگر تصور بندھے گا کہ موت آنے والی ہے تو گھبراہٹ نہیں پیدا ہو گی۔ یہ کہے گا یا اللہ! اگر میں زندہ رہوں، تب بھی تیرا ہوں، مروں تب بھی تیرا ہوں۔ یہاں تو نے زمین کی سطح پہ رکھ رکھا ہے، وہاں زمین کی تہہ میں۔ عالم دونوں تیرے ہی ہیں۔ اس لیے تیرے ہی پاس رہوں گا، مجھے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔