تقسیم وراثت

276

وراثت کی ادائیگی کے لیے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو قانون وراثت کی حقیقت، اہمیت اور ضرورت سے آگاہ کیا جائے۔ اسلام نے وراثت کی تقسیم پر بہت زور دیا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے احکامات کی تفصیلات کے بجائے عموماً اجمالی احکام اور بنیادی اصول بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ حتی کہ ارکانِ اسلام نماز، روزہ، زکوۃ، حج جیسی عبادات کے احکام بھی اجمالی و اصولی طور پر دیے گئے ہیں۔ جب کہ وراثت، جس کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اس کے احکام تفصیل سے بیان کیے گئے اور ہر ایک کے حصے کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اتنے اہتمام سے احکام وراثت بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس معاملے میں کوتاہی نہ ہو اور مکمل طور سے اس پر عمل آوری ہوسکے۔ ورثا میں کسی کا حق نہ مارا جائے، اور ترکے کی تقسیم کو لے کر آپسی اختلاف و نزاع سے بچا جاسکے۔
وراثت کی تقسیم کا حکم اختیاری و رضا کارانہ نہیں ہے، کہ تقسیم کر دیں تو اچھا ہے اور نہ ادا کریں تو کوئی بات نہیں، بلکہ یہ لازمی طور پر واجب التعمیل حکم ہے جس کی ہر حال میں پیروی کرنا ایمان والے پر لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں‘‘۔ ’’اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے‘‘۔ (النساء: 11) ’’یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے‘‘۔ (النساء: 12) ’’یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے‘‘۔ (النساء: 7) ترکہ زیادہ ہو یا کم اس کی تقسیم کا حکم دیا گیا ہے۔
وراثت کی ادائیگی کی طرف قرآن نے بار بار توجہ اس لیے دلائی ہے کہ اس سلسلے میں غفلت و کوتاہی ہونے کے امکانات زیادہ تھے، اور آج عملاً معاشرے میں یہ غفلت عام نظر آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کم زور وارثین کے حقوق کی پامالی آسانی سے کی جاتی ہے۔ قرآنی آیات میں اس بات پر زور ملتا ہے کہ ترکے میں جس کسی کا بھی حق ہے اس کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے۔ اور اس ضابطے کے مطابق کیا جائے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔ ترکے میں حصہ متعین کرتے وقت نہ تو کسی کی من مانی چلے گی اور نہ ہی اس کی ادائیگی میں سستی جائز ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کی دردناک سزا سنائی گئی ہے۔ وراثت کی تقسیم کو اللہ کے حدود سے تعبیر کیا گیا ہے، ان کو توڑنا اللہ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اور اس کی ادائیگی پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے‘‘۔ (النساء:13-14)
احادیث رسول میں وراثت کی ادائیگی کی اہمیت کو واضح کیا گیا اور عدم ادائیگی پر تنبیہ کی گئی ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: جو اپنے وارث کو میراث سے محروم کرے گا تو قیامت کے دن اللہ اس کو جنت کی میراث سے محروم کر دے گا۔ ( ابن ماجہ) مرد اورعورت ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے رہتے ہیں پھر ان کے مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ تو ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ نے وراثت کے سیاق میں خبردار کیا ہے کہ حق دار یتیموں کا حق نہ مارا جائے۔ آدمی تصور کرے کہ اگر وہ مر رہا ہو اور اس کے اپنے بچے چھوٹے ہوں تو وہ اپنے بچوں کے بارے میں کس طرح کے اندیشوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی خواہش یہی ہوتی کہ دوسرے ورثا اس کے بچوں کا حق نہ ماریں۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ ترکے میں حق تلفی کے بہت برے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ کہا گیا کہ گویا وہ آگ کھا رہا ہے اور وہ ضرور جہنم میں جائے گا۔ قرآن میں دوسرے احکام کی نافرمانی اور کفر کے سلسلے میں جہنم کی وعید ہے، لیکن اس کے بارے میں فرمایا: ’’وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے‘‘۔ (النساء: 10)
قرآن مجید اور احادیث رسول کی اتنی واضح تعلیمات کے بعد کسی صاحب ایمان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس حکم سے غفلت برتے گا۔ ان واضح تعلیمات کو بڑے پیمانے پر عام کرنا سب کی ذمے داری ہے۔
وراثت کی ادائیگی اور شرعی طور سے تقسیم کرنے میں اللہ پر توکل اہم رول ادا کرتا ہے۔ بندہ مومن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ رزق دینے والی اور ضروریات کی تکمیل کرنے والی اللہ کی ذات ہے۔ یہ یقین اس کو وراثت کی تقسیم کے وقت ہر طرح کے دباؤ سے آزاد رکھتا ہے اور وہ کسی حیلے بہانے کا سہارا نہیں ڈھونڈتا۔
عام طور سے اہل ثروت وراثت تقسیم نہیں کرتے، وہاں یہی ذہن کار فرما ہوتا ہے کہ دولت تقسیم ہوگی تو گھاٹا ہوگا پھر وہ یہ سوچ کر وراثت کی تقسیم سے رک جاتے ہیں۔
غریب اور متوسط گھرانوں میں مرنے والا جائیداد و باغات تو چھوڑتا نہیں، اس کا ترکہ محض ایک رہائشی گھر ہوتا ہے جس کو تقسیم کیا جائے تو وہ کسی کے رہنے کے لائق نہیں رہتا ہے ایسے میں شرعی لحاظ سے اس کو بیچ کر ہی ترکے کے حصے ممکن ہو پاتے ہیں۔ تو سوال اٹھتا ہے کہ رہائش کا کیا ہوگا ظاہر ہے کہ رہائش کے لیے متبادل انتظامات تلاش کرنے پڑیں گے۔ یہ مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسے میں وہی حضرات کھرے اترتے ہیں جن کے دلوں میں ایمان راسخ ہو، جو اللہ کی ذات پر بھروسا رکھتے ہوں، جنھیں یہ یقین کامل ہو کہ رازق تو اللہ ہے، اس کی زمین بہت بڑی اور انتظامات بہت زیادہ ہیں، وہی اس مشکل سے نکلنے کے اسباب پیدا کرے گا۔