وقف املاک ایکٹ غیر شرعی و غیر آئینی ہے ، علما نے مساجد پر فارما مسترد کردیا

248

 

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے گرے لسٹ سے نکالنے کی شرط جس کے تحت تمام مساجد کاریکارڈ طلب کیاگیا تھا پر عمل درآمد شروع کردیا ہے، مساجد کے منتظمین کو چندے کے حصول، زیر ملکیت دکان یا گھر کی تفصیلات دینے کا حکم دیا گیا ہے،حکومت سندھ نے صوبے بھر کی تمام مساجد کے ذرائع آمدن معلوم کرنے کے لیے فارم جاری کردیاہے،صوبائی محکمہ اوقاف نے تمام مساجد کو سوالنامہ ارسال کردیاہے۔محکمہ اوقات کی جانب سے مساجد کے منتظمین کو چندے کے حصول، زیر ملکیت دکان ، گھر کی تفصیلات دینے کا حکم دیا گیا ہے، اور تمام ائمہ مسجد کو جمعے کو جمع ہونے والے چندے اور اخراجات کی تفصیل فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق مساجد سے ایف اے ٹی ایف شرائط کے تحت تفصیلات مانگی گئی ہیں، جس کے بعد محکمہ اوقاف مساجد سے تفصیلات حاصل کررہاہے۔واضح رہے کہ ملک بھر میں لاکھوں مساجد حکومت کی زیرنگرانی نہیں ہیں یہ مساجد مخیر حضرات یاعلاقائی سطح
پرعام افراد کے چندے سے قائم ہیں ۔ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ کے تحت اس فیصلے سے مخیر حضرات جو مساجد کوچندہ دیتے ہیں کا نام بھی صیغہ راز میں رہنے پر سوال اٹھ جائے گا، چونکہ یہ خالصتاًاللہ اور اس کے بندے کامعاملہ ہے اس لیے اس جانب حکومت کی طرف سے پوچھ گچھ اور معلومات تک رسائی کے باعث معاشرے میں بے چینی جنم لے رہی ہے۔جمعیت اتحادالعلما پاکستان کے صدرشیخ الحدیث مولانا عبدالمالک اورجمعیت اتحاد العلما کراچی کے صدر مولانا عبدالوحید نے کہا ہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ، حکومت سے مذاکرات جاری ہیں اس دوران اس طرح کا عمل معاملے کو مزید مشکوک بنارہا ہے، وقف املاک بورڈ سے ایف اے ٹی ایف کی شق پر اختلاف ہے جس پر حکومت کو پہلے اعتماد میں لینا چاہیے تھے ۔ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان قاری محمد حنیف جالندھری نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے صوبے بھر کی مساجد کے ذرائع آمدن معلوم کرنے کے لیے جو فارم جاری کیا گیا ہے اس حوالے سے وفاق المدارس سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے،مساجد اور مدارس عوام کے تعاون سے چلتے ہیں،حکومت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور دیگر طاقتوں کے خوف کی وجہ سے مدارس اور مساجد کی آزادی پر قدغن لگانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف املاک ایکٹ 2020ء مدارس کی آزادی کے خلاف ہے۔ عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے کہنے پر قانون سازی کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد مدارس کو فنڈز دینے والوں پر سختی ہو جائے گی۔ جو مدارس کو چلانے کی راہ میں مشکلات کا باعث بنے گی۔ وقف املاک ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم مساجد اور مدارس کی آزادی کو پامال کر رہی ہیں۔اس قانون سازی کا مقصد ہے کہ لوگوں کو مدارس کی امداد سے روکا جائے۔انہوں نے کہا کہ جب مدارس کی امداد کے لیے لوگوں کو رجسٹریشن اور دیگر لوازمات کا کہا جائے گا تو اس کا مقصد صرف انہیں ہراساں کرنا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مدارس کی امداد بند ہو گی ۔ کیوں کہ مدارس کا اپنا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ مدارس کے عطیہ دہندگان سے پوچھ گچھ نہیں کی جانی چاہیے۔ کیوں کہ یہ ان کو ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔ جب اعلیٰ سطح پر اس قانون کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں کی جاتی ہے،اس قانون پر عمل درآمد ناممکن ہے۔جمعیت علما اسلام صوبہ سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے مساجد کو جاری کردہ محکمہ اوقاف کے پرفارمے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ اس پرفارمے کو یکسر مسترد کرتے ہیں کوئی بھی امام مسجد یا منتظم اس پرفارمے کو ہرگز نہ بھرے اور نہ ہی حکومت سے اس پر کوئی تعاون ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اسلام دشمنوں کی خوشنودی کے لیے مساجد کی معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔ مساجد ومدارس خودمختار اور غیر سرکاری ہیں اور اہل علاقہ اپنی مدد آپ کے تحت مساجد کا انتظام وانصرام چلانے میں آزاد ہیں۔ علامہ راشد سومرو نے کہا کہ جمعیت علما اسلام ایف اے ٹی ایف کی اسلام و ملک دشمن شرائط کو کسی صورت تسلیم نہیں کرے گی،حکومت ایف اے ٹی ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ملک کو گروی رکھنا چاہتی ہے لیکن ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس اور مساجد کی آزادی حریت پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔ جے یوآئی اس پرفارمے کو مساجد کے حریت کے خلاف سازش تصور کرتی ہے ، مساجد کے ائمہ و منتظمین پرفارمے کی مانگی معلومات کسی صورت نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنا قبلہ درست کرلے ، دینی مدارس اور مساجد وطن عزیز کی نظریاتی سرحدات کے محافظ ہیں، حکومت عالمی مالیاتی اداروں کی خوشنودی کے لیے مساجد و مدارس کی آزادی سلب کرنے کی خواہش ترک کردے ورنہ اس کے ردعمل میں سنگین نتائج کی ذمے دار حکومت ہوگی۔ مفتی محمد زبیرنے کہا کہ غیر ملکی اداروں کی ایما پر اپنے دینی اداروں کو اس طرح ہراسمنٹ اور پریشانی کا شکار کرنا دانشمندی نہیں ہے ،ملک پہلے ہی نازک صورتحال میں ہے۔ حکومت ان حالات میں مساجد انتظامیہ کو اس پرفارمے کو پر کراکر کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔یہ غلامی کی انتہا ہے ،ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔اس طرح کی معلومات سے فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عوام اور مساجد ومدارس کی خدمت پر مامور لوگوں کے دلوں میںحکومت سے نفرت جنم لے گی اور عوام بھی بدظن ہوں گے۔واضح رہے کہ اس قانون سازی کے حوالے سے سابق سینیٹر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے وقف املاک ایکٹ 2020ء کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔ اور اس قانون کی منسوخی کا باقاعدہ نوٹس سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیا تھا۔اس نوٹس میں سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ یہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کرے گا۔دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اہداف کے مطابق مساجد و مدارس کو دیے گئے فنڈز کی جانچ پڑتال کے لیے یہ قانون سازی ضروری ہے۔