صحافت کی متانت اٹھ گئی

364

اخبار میں دو اہل علم کی وفات کی خبر دیکھی تو دل میں ایک عجیب سی غم کی لہر دوڑ گئی پروفیسر شکیل الرحمن فاروقی کی ایک دن پہلے تدفین ہوئی جبکہ انتہائی شفیق استاد اور سینئر پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کی تدفین منگل 16مارچ کو بعد نماز ظہر ہوئی ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں مرحومین کی قبروں کو اپنے نور سے بھر دے اور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔ آمین
یہ 1973-74 کی بات ہوگی ہم اپنے ایک بزرگ کارکن کے ساتھ بس میں ناظم آباد سے ٹاور کی طرف کسی کام سے جارہے تھے ہماری بس جب گلبہار چورنگی سے لسبیلہ کی طرف جارہی تھی تو میں نے اپنے ساتھی بزرگ کارکن سے کہا کہ یہ گلبہار کا علاقہ ہے اور یہیں کہیں جسارت کے ایڈیٹر صلاح الدین صاحب رہتے ہیں انہوں نے کہا ایسی اہم شخصیات کو جن کی جان ہر وقت خطرے میں ہو انہیں تو شہر سے کہیں دور گلشن اقبال، گلستان جوہر یا یونیورسٹی کی طرف رہنا چاہیے۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں روزنامہ جسارت حزب اختلاف کا کردار ادا کررہا تھا بالخصوص اس اخبار کے اداریے عوام میں زبردست پزیرائی حاصل کررہے تھے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں چونکہ بچپن ہی سے اخبار کا قاری ہوں اس لیے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ پہلے زمانے میں اخبارات کے ادارتی صفحہ کو ہم ملک کے پڑھے لکھے، دانشور اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا صفحہ سمجھتے تھے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جسارت کے اداریوں کی کاٹ دار تحریروں نے ادارتی صفحے کو عوامی صفحہ بنادیا۔
ایک دفعہ پروفیسر عبدالغفور نے بتایا کہ میں نماز فجر کے بعد جب مطالعے میں مصروف ہوتا ہوں اور اگر اسی دوران جسارت آجائے تو پہلے سے جاری مطالعے کے دوران یہ دل چاہتا ہے کہ اخبار کی مین ہیڈنگ دیکھ لیں، مین ہیڈنگ دیکھ کر پھر مطالعے کی طرف آجاتا ہوں پھر خیال آتا ہے کوئی خاص خبریں ایک نظر میں دیکھ لیں پھر یہ کہ آج کے اداریے کا عنوان ہی دیکھ لیں اسی ادھیڑ بن میں چھوڑ کر جسارت کو پڑھنے لگتا ہوں۔ کم وبیش یہی کیفیت میری ہوتی کہ میں نماز کے بعد تفہیم القران کو بلند آواز سے والدہ کو سنانے کے لیے پڑھتا تھا لیکن جب اسی دوران جسارت آجاتا تو وہی کیفیت ہوتی جو غفور صاحب نے بیان کی تھی پھر میں تفہیم کا مطالعہ مختصر کر کے جسارت کا مطالعہ باواز بلند کرنے لگتا اس لیے کہ والد ہ بھی اخبار سنتی تھیں۔
بھٹو دور میں آئے دن جسارت بند ہوتا رہتا تھا اور پھر عدلیہ کے فیصلے پر بحال ہوجاتا، جس وقت ایڈیٹر صلاح الدین، پبلشر سید ذاکر علی اور پرنٹر قاسم نورانی گرفتار ہوتے تو حکیم اقبال حسین قائم مقام ایڈیٹر ہوجاتے لیکن ہمیں اس وقت بڑی حیرانی ہوتی کہ صلاح الدین صاحب کے جیل میں ہونے کے باوجود اداریوں کے لہجے کی سختی میں کوئی کمی نہیں محسوس ہوتی کیا حکیم اقبال حسین بھی صلاح الدین صاحب کی طرح لکھتے ہیں یا پھر صلاح الدین صاحب جیل سے اداریہ لکھ کر بھیجتے ہوں گے۔ اکتوبر 1977میں جب میں نے جسارت کے شعبہ حسابات میں جوائن کیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ جسارت کا اداریہ تو کراچی یونیورسٹی سے ڈرائیور لے کر آتا ہے وہاں کوئی پروفیسر صاحب یہ اداریہ لکھتے ہیں پھر معلوم ہوا کہ یہ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ ہیں جن کی تحریروں کے ذریعے روز بروز قارئین جسارت کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔
1973 سے 1977تک بھٹو صاحب کی حکومت رہی جو ایک طرح سے ظلم کی حکومت تھی پاکستان کے عوام سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمے داروں میں بھٹو صاحب کو بھی شامل سمجھتے تھے، اور وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار کی خاطر ملک کے دو ٹکڑے کر دیے۔ بھٹو دور میں جتنی بھی تحریکیں چلیں ان میں جسارت نے لیڈنگ کردار ادا کیا تحریک ختم نبوت میں جسارت نے بڑی زبردست تحریریں شائع کیں لیکن متین صاحب کے اداریے اپنے اندر بڑی جان رکھتے تھے۔
جسارت کے بعد جب صلاح الدین صاحب نے ہفت روزہ تکبیر نکالا تو متین صاحب تکبیر چلے گئے آج کے اخبار میں ان کے بارے میں رحلت کی خبر دیکھ کر بس ہمیں تو وہ پرانا دور یاد آگیا جب متین صاحب دفتر جسارت آتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے سرپر کسی چیز کا بوجھ ہے اور وہ تھکے تھکے سے لگ رہے ہیں لیکن جب وہ اداریہ لکھ چکتے تو وہ بالکل ہشاش بشاش اور ترو تازہ نظر آتے جسارت کے تمام ساتھیوں سے بہت شفقت سے پیش آتے وہ انتہائی خلیق اور ملنسار فرد تھے ہماری دعا ہے کہ انہوں نے جو زندگی بھر قلمی جہاد کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کے اس قلمی جہاد کو قبول فرمائے اور انہیں اجر عظیم سے نوازے آمین۔