معراج النبی ﷺ کے مشاہدات

391

معراج النبیؐ کا واقعہ بے شمار معجزات، رفعتوں اور عظمتوں پر مشتمل ہے، ہمارے ہاں بالعموم معراج النبیؐ کے موقع پر واعظین اورخطبا اپنی اپنی استعداد اور فنِ خطابت کے مطابق انہی عظمتوں کا بیان کرتے ہیں، کیونکہ اس سے سامعین کو روحانی سرور نصیب ہوتا ہے،
’’سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جارہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے کہا: یہ دنیا دار خطیب ہیں، جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھلا دیتے تھے، حالانکہ وہ کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے تھے (اور جانتے تھے کہ احکامِ شرعیہ سے کسی کو استثنا نہیں)، پس کیا وہ عقل نہیں رکھتے‘‘۔ (مسند احمد:12856) اس حدیث میں البقرۃ: 44 کی طرف اشارہ ہے جو علمائے یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ امام بیہقی نے بیان کیا ہے:
(1) ’’آپؐ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی زبانیں اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جارہے تھے، جونہی زبانیں اورہونٹ کٹ جاتے، وہ پھر پہلی صورت پر بحال ہوجاتے اور اُن میں کوئی کمی نہ ہوتی، نبی کریمؐ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے کہا: یہ آپ کی امت کے فتنہ پرور خطیب ہیں‘‘۔
(2) ’’آپؐ کا گزر ایک ایسے شخص پر ہوا جس نے لکڑیوں کا ایک گٹھا جمع کر رکھا تھا، وہ اُسے اٹھا نہیں پاتا تھا، لیکن حِرص کے سبب اُس میں اور لکڑیاں ڈالتا جاتا، نبی کریمؐ نے پوچھا: جبریل! یہ کون ہے، جبریلِ امین نے عرض کی: یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں، اُن کو ادا نہیں کرپاتا اور مزید امانتیں جمع کرتا جاتا ہے‘‘۔
(3) پھر آپؐ کا گزر ایک پتھر کے پاس سے ہوا جس سے ایک بڑا بیل نکلتا ہے، وہ دوبارہ اس میں داخل ہونا چاہتا ہے، لیکن داخل نہیں ہوپاتا، نبی کریمؐ نے فرمایا: جبریل! یہ کیا ہے، جبریلِ امین نے کہا: یہ شخص شہر میں (فتنہ برپا کرنے والی) کوئی بات کرتا ہے، پھر (اُس کے نتائج دیکھ کر) اس پر نادم ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے واپس لے لے (تاکہ فتنہ فرو ہوجائے)، لیکن ایسا کر نہیں پاتا‘‘۔ (دَلَائِلُ النّبُوّۃ لِلْبَیْہَقِی، ج:2، ص:397) اس کے مظاہر ہم آئے دن اپنے گِرد وپیش میں دیکھتے رہتے ہیں، سیاسی رہنما ترنگ میں آکر کوئی بات کہہ دیتے ہیں، پھر جب اس پر ردِّعمل آتا ہے تو یا تو سِرے سے انکار کردیتے ہیں یا بہانے تراشتے ہیں کہ میرا مطلب یہ نہیں تھا، وہ نہیں تھا۔ لیکن بعض باتیں کسی تاویل یا توجیہ کی محتاج نہیں ہوتیں، بلکہ اپنی وضاحت آپ ہوتی ہیں اور پھر گریز کے لیے جو بھی حیلہ اختیار کیا جائے، وہ ’’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق ہوتا ہے، اسی لیے تو رسول اللہؐ نے فرمایا تھا: ’’جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا (اگر اسے اس کی توفیق نصیب نہیں ہے تو) چپ رہے‘‘۔ (بخاری :6018)
(4)’’پھر آپؐ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جن کے سروں کو بھاری پتھر سے کچلا جارہا تھا، جب سر کچل دیا جاتا تو پھر وہ اصل حالت پر آجاتا اور عذاب کی یہ کیفیت مسلسل جاری رہتی، آپؐ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نمازوں سے بوجھل ہوجاتے ہیں‘‘۔ یعنی وہ نمازوں کو اپنے اوپر بار محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: ’’بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر اُن پر نہیں جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں، جنہیں یقین ہے کہ (مرنے کے بعد) وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور یقیناً وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 45-46) خود رسول اللہؐ کی کیفیت حدیث پاک کے مطابق یہ تھی:
سیدنا انس بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’تمہاری دنیا سے (مجھے تین چیزیں پسند ہیں )، (پاکباز) عورتیں، خوشبو اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘۔ (سنن نسائی :3939) سو اللہ تعالیٰ کے رسول مکرمؐ کے لیے نماز قلب کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک تھی، جبکہ منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک منافق (اپنی دانست میں) اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی ان کو غافل کر کے مارے گا اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو لوگوں کے دکھاوے کے لیے کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت کم کرتے ہیں، وہ (ایمان اور کفر کے) درمیان ڈگمگا رہے ہیں، (صدقِ دل سے) نہ اس طرف ہیں اور نہ اُس طرف اور جسے اللہ گمراہ کر دے تو آپ اُس کے لیے کوئی راہ نہ پائیں گے‘‘۔ (النساء:142-143)
(5) ’’پھر آپؐ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کی دونوں شرمگاہوں پر چیتھڑے تھے اور وہ جانوروں کی طرح خاردار زہریلے درخت، زقّوم (تھوہرکا کڑوا درخت) اور گرم پتھر کھارہے تھے، آپؐ نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں، جبریلِ امین نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مالوں کے صدقات ادا نہیں کرتے تھے‘‘ اور اللہ نے اُن پر ظلم نہیں فرمایا، بلکہ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں‘‘۔ (آل عمران :117)