گھروں کا انتظام چلانے والی خواتین بھی ورکنگ ویمن ہیں ‘حافظ نعیم الرحمن

182

کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین کے تحت ’’عالمی یوم خواتین ‘‘ کے حوالے سے مقامی ہوٹل میں ’’عورت اور فیملی ازم ‘‘ کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ کانفرنس میں مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ کانفرنس سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن ، جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی ، شعبہ امور خارجہ کی چیئر پرسن ، اسلامی نظریاتی کونسل وسابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، ناظمہ کراچی اسما سفیر، حلقہ خواتین کراچی کے میڈیا سیل کی ترجمان ڈاکٹر شمائلہ نعیم ،ویمن اسلامک لائرز فورم کی چیئر پرسن ایڈووکیٹ طلعت یاسمین ، ورکنگ ویمن ویلفیئر ٹرسٹ کی نائب صدر حمیرا قریشی ، فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر کوڈ 19اور یوتھ کی نمائندہ عریبہ احمد ، عالیہ صارم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی حلقہ خواتین نے کل بروز پیر8مارچ کو کراچی پریس کلب پر خواتین کے حقوق کے حصول کے سلسلے میں آگاہی واک کرنے کا اعلان کیا ۔کانفرنس ہال میں کتابوں کے اسٹالز ، سوشل میڈیا ٹیم اور ایک بڑی اسکرین بھی نصب کی گئی تھی ۔ کانفرنس میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی خواتین میں ایوارڈز بھی تقسیم کیے گئے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین معاشرے کا آدھاحصہ ہے ، میڈیا اور حکومتی سطح پر معاشرے کا آدھا حصہ نظر انداز کیا جا رہا ہے ،اسلام میں عورت کے اخراجات کی ذمے داری شوہر ، باپ ، بھائی ، رشتے دار معاشرے سمیت ریاست پر عاید ہوتی ہے ۔ موجودہ دور میں میڈیا عورت کی شخصیت کو مجروح کرتے ہوئے اسے بے وفا اور بے اعتبار دکھانے کی کوشش کر رہا ہے ، یہ سب کس ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے ؟عورت کو بے وقعت کرنے اور اشتہار میں استعمال کرنے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ گھروں کا انتظام چلانے والی خواتین بھی ورکنگ ویمن ہیں ، اسلام نے عورت کو حقوق اور وراثت میں حصہ دیا گیا ہے ، اسلام نے عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا مکمل حق دیا ہے ، جبکہ مغرب کے معاشرے میں حال یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے قیام کے طویل عرصے کے بعد 1920ء میں ایک خاتون کو پہلی بار ڈگری جاری کی گئی تھی ۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ عورت کے حقوق کے لیے بات کرنے والی این جی اوز بھی ٹھیکیداری نظام کے خاتمے کے لیے بات نہیں کرتیں ، عورت ٹھیکیداری نظام کے تحت فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہے ،خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کا سرکاری سطح پر کوئی نظام ہی نہیں ۔ دردانہ صدیقی نے کہا کہ اسلا م ہی خواتین کے حقوق کا محافظ اور ضامن ہے ، اسلام کے عدل وانصاف پر مبنی معاشرے میں مردوعورت دونوں قابل احترام ہیں، حقوق وفرائض کی رسہ کشی سے منفی رویے جنم لیتے ہیں، آج کی سسکتی اور حقوق کی دوڑ میں سرگرداں عورت کے لیے جائے پناہ صرف اسلام کا دامن ہے،موجودہ دور میں آزادی نسواں کے دلفریب نعروں کی بدولت عورت دہری ذمے داریاںبرداشت کرنے پر مجبور ہے۔جس کی وجہ سے معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان متاثر ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کی خواتین اس بات کا عزم کرتی ہیں کہ عورت کو اس کے اصل حقوق دلانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے ، عورت کو اس کا حق نبی ؐ کی تعلیمات کے مطابق دیا جائے ، اسلام نے عورت کومعاشی ، تعلیمی ، معاشرتی سمیت تمام حقوق دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عورت کو کاروکاری ، قرآن سے شادی سمیت دیگر معاملات پر قانون سازی کی ضرورت ہے ، موجودہ دور میں عورت کے حقیقی مسائل اجاگر کیے جائیں ۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ 19ویں اور 20ویں صدی میں عورت کو حقوق دینے کی آڑ میں مذہب اور معاشرے سے دور کرنے کی سازش کی گئی ، جماعت اسلامی فی میل ازم یا میل ازم کی نہیں ، فیملی ازم کی بات کرتی ہے ، جماعت اسلامی حلقہ خواتین عورت کو حقوق دلانے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہی ہے ، حلقہ خواتین کراچی پاکستان سمیت دنیا بھر میں فعال کردار ادا کر رہی ہے ، جماعت اسلامی حلقہ خواتین پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا ،سوشل میڈیا ، الخدمت ، ویمن اینڈ فیملی کمیشن ، لیگل ایڈ کے شعبوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں ، اسی طرح ہر سال عالمی یوم حجاب کی طرح عالمی یوم خواتین بھی منا رہی ہیں ، تاکہ خواتین کو حضرت خدیجہ ؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت بی بی فاطمہ ؓاور حضرت بی بی زینب ؓکی طرح زندگی گزارنے کی ترغیب دی جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ عورت کی پہلی ذمے داری اپنے وقار اور گھروں کے سکون کا خیال رکھنا ہے ۔ اسما سفیر نے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر پیش کیا ہے ، جس میں معاشرے میں استحکام خاندان ، طلاق کی شرح میں اضافے ، عورت پر ہونے والے مظالم ، خواتین کی فکری اور گھریلو تربیت کرنا ، ملک بھر میں دعوت کے فروغ ، قدرتی آفات میں بھر پور مدد ، فلاح کا نیٹ ورک کا کام ، دین پر عمل نہ کرنے کے باعث مسائل ، خواتین کے معاشی و سماجی مسائل کم کرنے ،نوجوان بچیوں ،تعلیم ، صحت اور صحافت سمیت دیگر شعبوں کے حوالے سے مختلف نکات شامل ہیں ۔ شمائلہ نعیم نے کہا کہ کچھ شعبوں میں خواتین کی کارکردگی مردوں سے بہتر ہے اور کچھ شعبوں میں مردوں کی کارکردگی خواتین سے بہتر ہے ۔